www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

501392
س۱۰۳۳۔ میری والدہ سیدانی ھیں، لھذا مندرجہ ذیل سوالات کے جواب مرحمت فرمائیں:
۱۔ کیا میں سید ھوں۔
۲۔ کیا میری اولاد میرے پوتے پر پوتے وغیرہ سید ھیں؟
۳۔ وہ شخص جو باپ کی طرف سے سید ھو اور جو ماں کی طرف سے سید ھو ، ان دونوں میں کیا فرق ھے؟
ج۔ سید پر آثار و احکام شرعیہ کے مرتب ھونے کی معیار یہ ھیں کہ سید کی نسبت باپ کی طرف سے ھو لیکن رسول اکرم سے ماں کی طرف سے منسوب ھونے والے بھی اولاد رسول اکرم ھیں۔
س۱۰۳۴۔ کیا جناب عباس ابن علی ابن ابی طالب کی اولا دکا حکم بھی وھی ھے جو دوسرے سیدوں کا ھے ، مثلاً جو طالب علم اس سلسلے سے منسوب ھیں کیا وہ سادات کا لباس پھن سکتے ھیں ؟ اور کیا اولاد عقیل ابن ابی طالب کا بھی یھی حکم ھے؟
ج۔ جو شخص باپ کی طرف سے جناب عباس ابن علی ابی طالب ﷼ سے نسبت رکھتا ھے وہ علوی سید ھوتا ھے اور سارے علوی اور عقیلی سید ھاشمی ھیں۔ لھذا ھاشمی سید کے لئے جو مراعات ھیں وہ ان سے استفادہ کرسکتے ھیں۔
س۱۰۳۵۔ پچھلے دنوں میں نے اپنے والد کے چچیرے بھائی کے ذاتی وثیقہ کو دیکھا جس میں انھوں نے اپنے کو سید لکھا ھے ، لھذا مذکورہ بات کے پیش نظر رکھتے ھوئے اور یہ بھی جانتے ھوئے کہ اپنے رشتہ داروں میں ھم سید مشھور ھیں، جبکہ جو وثیقہ مجھے ملا ھے وہ بھی اس بات کا قرینہ ھے میری سیادت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ھے؟
ج۔ کسی رشتہ دار کا اس قسم کا وثیقہ آپ کی سیادت کے لئے شرعی دلیل نھیں بن سکتا اور جب تک آپ کو سید ھونے کا ا طمینان یا اس کے بارے میں شرعی دلیل نہ ھو، تب تک آپ کے لئے جائز نھیں کہ اپنے کو سیادت کے شرعی آثار اور احکام کا حقدار سمجھیں۔
س۱۰۳۶۔میں نے ایک بچے کو بیٹا بنایا اور اس کا نام علی رکھا ھے ۔ا س کا شناختی کارڈ لینے کے لئے جب رجسٹریشن آفس گیا تو ان لوگوں نے میرے اس گود لئے بیٹے کو ” سید “ لکہ دیا ، لیکن میں نے اسے قبول نھیں کیا۔ کیونکہ میں اپنے جد رسول اللہ سے ڈرتا ھوں۔ اب میں ان دو چیزوں کے بارے میں متردد ھوں یا تو اسے بیٹا نہ بناوٴں اور یا اس گناہ کا مرتکب ھوجاوٴں ( یعنی ) جو سید نھیں ھے اس کا سید ھونا قبول کروں۔ پس میں کس طرف جاوٴں برائے مھربانی میری راھنمائی فرمائیے؟
ج۔ گود لئے بیٹے کے شرعی آثار مرتب نھیں ھوتے اور جو حقیقی باپ کی طرف سے سید نہ ھو اس پر سید کے احکام و آثار نافذ نھیں ھوتے لیکن جس بچے کا کوئی کفیل اور سرپرست نہ ھو اس کی کفالت کرنا مستحسن عمل اور شرعاً اچھا فعل ھے۔
خمس کے مصارف ، اجازہ ، ھدیہ ، حوزہ علمیہ کا ماھانہ وظیفہ
س۱۰۳۷۔بعض اشخاص خود سادات کے بجلی ، پانی کابل ادا کرتے ھیں کیا وہ اس بل کو خمس میں حساب کرسکتے ھیں؟
ج۔ ابھی تک جو انھوں نے سھم سادات کے عنوان سے ادا کیا ھے وہ قبول ھے لیکن مستقبل میں ادا کرنے سے پھلے اجازت لینا واجب ھے۔
س۱۰۳۸۔ جناب عالی ! میرے ذمہ جو سھم امام ھے اس میں سے ایک ثلث کو دینی کتابیں خریدنے اور تقسیم کرنے کی اجازت عنایت فرمائیں گے؟
ج۔ اگر ھمارے وہ وکیل جن کو سھم امام خرچ کرنے کی اجازت ھے مفید دینی کتابوں کی تقسیم و فراھمی کو ضروری سمجھیں تو اس سلسلہ میں وہ اس مال سے ایک تھائی صرف کرسکتے ھیں جس کوو ہ مخصوص شرعی موارد میں صرف کرنے کے مجاز ھیں۔
س۱۰۳۹۔ کیا ایسی علوی عورت کو سھم سادات دیا جاسکتا ھے جو نادار اور اولاد والی ھے لیکن اس کا شوھر علوی نھیں اور نادار اور فقیر ھے؟ اور کیا وہ عورت اس سھم سادات کو اپنی اولاد اور شوھر پر خرچ کرسکتی ھے؟
ج۔ اگر شوھر نادار ھونے کی بنا پر اپنی زوجہ کا نفقہ پورا نھیں کرسکتا اور زوجہ بھی شرعی اعتبار سے فقیر ھو تو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے وہ حق سادات لے سکتی ھے اور جو حق سادات اس نے لیا ھے اسے وہ اپنے اوپر اپنی اولاد پر یھاں تک کہ اپنے شوھر پر خرچ کرسکتی ھے۔س۱۰۴۰۔ حق امام اورحق سادات لینے والے ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ھے جو ( حوزہ علمیہ کے وظیفہ کے علاوھ) تنخواہ لیتا ھے جو اس کی زندگی کے ضروریات کے لئے کافی ھے؟
ج۔ جو شخص شرعی نقطہ نظر سے مستحق نھیں ھے اور نہ حوزہ علمیہ کے شھریہ کے قواعد و ضوابط اس سے متعلق ھیں وہ حق امام و حق سادات سے نھیں لے سکتا۔
س۱۰۴۱۔ ایک علوی عورت مدعی ھے کہ اس کا باپ اپنے اھل و عیال کے اخراجات پورے نھیں کرتا ھے اور ان کی حالت یہ ھے کہ وہ مساجد کے سامنے بھیک مانگنے پر مجبور ھیں اور اس سے وہ اپنی زندگی کا خرچ نکالتے ھیں۔لیکن اس علاقے کے رھنے والے جانتے ھیں کہ یہ سید پیسے والا ھے لیکن بخل کی وجہ سے اپنے اھل و عیال پر خرچ نھیں کرتا تو کیا ان کے اخراجات سھم سادات سے پورے کرنا جائز ھے اور فرض کریں کہ بچوں کا والد یہ کھے کہ مجہ پر فقط طعام اور لباس واجب ھے اور دوسری چیزیں مثلاً عورتوں کی بعض خصوصی ضروریات ، اسی طرح چھوٹے بچوں کا روزانہ کاخرچ جو عام طور پر دیا جاتا ھے واجب نھیں ، تو کیا ان کو ان ضروریات کے لئے سھم سادات دے سکتے ھیں؟
ج۔ پھلی صورت میں اگر وہ اپنے باپ سے نفقہ لینے پر قدرت نہ رکھتے ھوں تو انھیں نفقہ کے لئے ضرورت کے مطابق سھم سادات سے دے سکتے ھیں ، اسی طرح دوسری صورت میں اگر انھیں ، خوراک ، لباس اور رھائش کے علاوہ ، کسی ایسی چیز کی ضرورت ھو جو ان کی حیثیت کے مطابق ھو تو انھیں سھم سادات میں سے اتنا دیا جاسکتا ھے جس سے ان کی ضرورت پوری ھوجائے۔
س۱۰۴۲۔ کیا آپ اس بات کی اجازت دیتے ھیں کہ لوگ سھم سادات خود محتاج سیدوں کو دیدیں؟
ج۔ جس شخص کے ذمہ سھم سادات ھے اس پر واجب ھے کہ وہ اس سلسلہ میں اجازت حاصل کرے۔
س۱۰۴۳۔ کیا آپ کے مقلدین سھم سادات نادار سید کو دے سکتے ھیں یا کل خمس یعنی سھم امام و سھم سادات آپ کے وکلاء کو دینا واجب ھے تاکہ وہ اسے شرعی امور میں صرف کریں۔
ج۔ اس سلسلہ میں سھم سادات اور سھم امام ﷼ میں کوئی فرق نھیں ھے۔
س۱۰۴۴۔ کیا شرعی حقوق ( خمس ، رد مظالم اور زکوٰة) حکومت کے امور سے ھے یا نھیں؟ اور کیا وہ شخص جس پر حقوق شرعیہ واجب ھوں وہ خود مستحقین کو سھم سادات و زکوٰة وغیرہ دے سکتا ھے؟
ج۔ زکوٰة اور رد مظالم کی رقم دین دار پارسا مفلسوں کو دینا جائز ھے لیکن خمس کو ھمارے دفتر میں یا ھمارے ان وکیلوں میں سے کسی ایک کے پاس پھونچانا واجب ھے جنھیں شرعی موارد میں خمس صرف کرنے کی اجازت ھے۔
س۱۰۴۵۔ وہ سادات جن کے پاس کام اور کاروبار کا ذریعہ ھے ، خمس کے مستحق ھیں یا نھیں؟ امید ھے کہ اس کی وضاحت فرمائیں گے؟
ج۔ اگر ان کی آمدنی عرف عام کے لحاظ سے انکی معمولی زندگی کے لئے کافی ھے تو وہ خمس کے مستحق نھیں ھیں۔
س۱۰۴۶۔ میں ایک پچیس سالہ جوان ھوں۔ ملازمت کرتا ھوں اور ابھی تک کنوارہ ھوں والد اور والدہ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ھوں والدین ضعیف العمر ھیں اور چار سال سے میں ھی اخراجات پورے کررھا ھوں میرے والد کام کرنے کے لائق نھیں ھیں نہ ان کی کوئی آمدنی ھے۔ واضح رھے کہ میں ایک طرف سال بھر کے منافع کا خمس ادا کروں اور دوسری طرف زندگی کے تمام اخراجات پورے کروں یہ میرے بس میں نھیں ھے ، میں گذشتہ برسوں کے منافع کے خمس مبلغ ۱۹ ھزار تومان کا مقروض ھوں۔ میںنے اس کو لکہ دیا ھے تاکہ بعد میں ادا کروں۔ عرض یہ ھے کہ کیا میں سال بھر کے منافع کا خمس اپنے اقرباء جیسے ماں باپ کو دے سکتا ھوں یا نھیں؟
ج۔ اگر ماں باپ کے پاس اتنی مالی استطاعت نھیں جس سے وہ اپنی روز مرہ کی زندگی چلاسکیں اور آپ ان کا خرچ برداشت کرسکتے ھیں تو ان کا نفقہ آپ پر واجب ھے اور جو کچھ آپ ان کے نفقہ پر خرچ کرتے ھیں، وہ شرعی اعتبار سے آپ پر واجب ھے ،اس کو آپ اس خمس میںحساب نھیں کرسکتے جس کا ادا کرنا آپ پر واجب ھے۔
س۱۰۴۷۔ میرے ذمہ سھم امام علیہ السلام کے ایک لاکہ تومان ھیں اور ان کا آپ کی خدمت میں ارسال کرنا واجب ھے دوسری طرف یھاں ایک مسجد ھے جھاں پیسہ کی ضرورت ھے، کیا آپ اجازت دیتے ھیں کہ یہ رقم اس مسجد کے امام جماعت کو دیدی جائے تاکہ وہ اس مسجد کی تکمیل میں اسے خرچ کریں؟
ج۔ دور حاضر میں ، میں سھم امام و سھم سادات کو حوزات علمیہ ( دینی مدارس) پر خرچ کرنا مناسب سمجھتا ھوں ، مسجد کی تکمیل کے لئے مومنین کے تعاون اور بخشش سے استفادہ کیا جاسکتا ھے۔
س۱۰۴۸۔ اس بات کو ملحوظ رکھتے ھوئے کہ ممکن ھے ھمارے والد نے اپنی زندگی میں مکمل طور پر اپنے مال کا خمس ادا نہ کیا ھو اور ھم نے ھسپتال بنانے کے لئے ان کی زمین سے ایک ٹکڑا ھبہ کیا ھے کیا اس زمین کو مرحوم کے خمس میں حساب کیا جاسکتا ھے؟
ج۔ خمس میں اس زمین کا حساب نھیں کیا جاسکتا ھے۔
س۱۰۴۹۔ کن حالات میں خمس دینے والے کو خود اس کا خمس ھبہ کیا جاسکتا ھے؟
ج۔ سھمین مبارکین (سھم سادات وسھم امام)کو ھبہ نھیں کیاجاسکتا۔
س۱۰۵۰۔ اگر ایک شخص کے پاس سال کی اس تاریخ میں جس میں خمس ادا کرتا ھے ، اس کے اخراجات سے ایک لاکہ روپیہ زیادہ ھو۔ اور اس رقم کا وہ خمس ادا کرچکا ھو ، اور آنےوالے سال میں نفع کی رقم ایک لاکہ پچاس ھزار ھوگئی ھو تو کیا نئے سال میں وہ صرف پچاس ھزار روپیہ کا خمس اد ا کرے گا یا دوبارہ مجموعاً ایک لاکہ پچاس ھزار کا خمس دے گا؟
ج۔ جس مال کا خمس دیا جاچکا ھے اگر نئے سال میں وہ خرچ نھیں ھوا ھے اور کل مال موجود ھے تو دوبارہ اس کا خمس نھیں دینا ھے اور اگر سال کے اخراجات کو خود راس المال سے اور اس کے منافع سے پورا کیا گیا ھے تو سال کے آخر میں منافع پر خمس مخمس اور غیر مخمس مال کی نسبت سے واجب ھے۔
س۱۰۵۱۔ جن دینی طلبہ نے اب تک شادی نھیں کی ھے۔ اور ان کے پاس اپنا گھر بھی نھیں ، کیا ان کی اس آمدنی میں خمس ھے جو انھیں تبلیغ ، ملازمت امام علیہ السلام سے دستیاب ھوئی ھے، یا وہ خمس دئیے بغیر اس آمدنی کو شادی کے لئے جمع کرسکتے ھیں اور وہ آمدنی خمس سے مستثنیٰ ھو؟
ج۔ وہ حقوق شرعیہ جو طلاب محترم حوزہ علمیہ کو مراجع عظام کی طرف سے دئیے جاتے ھیں ان پر خمس نھیں ھے لیکن تبلیغ و ملازمت کے ذریعہ ھونے والی آمدنی اگر سال کی اس تاریخ تک محفوظ ھے جس میں خمس دینا ھے تو اس کا خمس دینا واجب ھے۔
س۱۰۵۲۔ اگر کسی شخص کا مال اس مال سے مخلوط ھوجائے جس کا خمس دیا جاچکا ھے اور کبھی کبھی وہ اس مخلوط مال سے خرچ بھی کرتا ھو اور کبھی اس میں اضافہ بھی کرتا ھو ، اس امر کو مدنظر رکھتے ھوئے کہ مخمس مال کی مقدار معلوم ھے تو کیا اس پر پورے مال کا خمس دینا واجب ھے یا صرف اس مال کا خمس دینا واجب ھے جس کا خمس نھیں دیا تھا؟
ج۔ اس پر باقی ماندہ رقم سے صرف اس مال کا خمس دینا واجب ھے جس کا خمس نھیں دیا گیا ھے۔
س۱۰۵۳۔ وہ کفن جو خریدنے کے بعد چند برسوں تک اسی طرح پڑا رھا کیا اس کا خمس دینا واجب ھے یا اس کی اس قیمت کا خمس دینا واجب ھے کہ جس سے خریدا گیا تھا؟
ج۔ اگر کفن اس مال سے خریدا گیا ھے کہ جس کا خمس دیا جاچکا تھا تو اس پر خمس نھیں ھے ورنہ اس کا موجودہ قیمت کے مطابق خمس دینا پڑے گا۔
س۱۰۵۴۔ میں ایک دینی طالب علم ھوں اور میرے پاس کچھ مال تھا ، بعض اشخاص کی مدد سے اور سھم سادات اور قرض لے کر میں نے ایک چھوٹاسا گھر خریدا تھا۔اب وہ گھر میں نے فروخت کردیا ھے، پس اگر ا س کی قیمت اس سال تک ایسے ھی رکھی رھے اور دوسرا گھر نہ خریدوں تو کیا اس مال پر جو گھر خریدنے کے لئے ھے خمس دینا واجب ھے؟
ج۔ اگر آپ نے حوزہ علمیہ کے وظیفہ دوسروں کے مدد اور شرعی حقوق سے گھر خریدا تھا تو اس گھر کی قیمت پر خمس نھیں ھے۔

Add comment


Security code
Refresh