www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

514174
س۱۰۶۴۔ شھروں کے قانون اراضی کے مطابق
۱۔ غیر آباد زمینوں کو انفال کو جزء سمجھا جاتا ھے اور یہ اسلامی حکومت کے تحت تصرف ھوتی ھیں۔
۲۔ شھر کی آباد وغیرآباد زمینوں کے مالکوں کے لئے ضروری ھے کہ اپنی ان زمینوں کو جن کی حکومت یا بلدیہ کو ضرورت ھو ، علاقہ کی رائج قیمت پر فروخت کریں۔
اب سوال یہ ھے :
۱۔ اگر کوئی شخص ایسی غیر آباد زمین کو ( جس کا وثیقہ اس کے نام تھا لیکن اس قانون کے مطابق اس وثیقہ کا کوئی اعتبار نھیں رھا سھم امام و سھم سادات کے عنوان سے دیدے تو اس کا کیا حکم ھے؟
۲۔ اگر ایک شخص کے پاس کچھ زمین ھے اور حکومت یا بلدیہ کے قانون کے مطابق وہ اسے فروخت کرنے پر مجبور ھے چاھے زمین آباد ھویا نہ ھو لیکن وہ شخص اسے سھم امام و سھم سادات کے عنوان سے دے دیتا ھے تو اس کا کیا حکم ھے؟
ج۔ غیر آباد زمین اگر اس شخص کی ملکیت نھیں ھے جس کے نام کا وثیقہ ھے تو اسے خمس کے عنوان سے چھوڑنا صحیح نھیں ھے اور نہ ھی اسے اس خمس میں حساب کرسکتا ھے جو اس کے ذمہ ھے۔ اسی طرح اس مملوکہ زمین کو بھی خمس کے عنوان سے چھوڑنا یا اس کا اپنے ذمہ واجب خمس میں حساب کرنا صحیح نھیں ھے ، جس کو بلدیہ یا حکومت اس کے مالک سے قانون کے مطابق معاوضہ دے کر یا بغیر معاوضہ کے لے سکتی ھے۔
س۱۰۶۵۔ اگر کوئی شخص اینٹ کے کارخانے کے نزدیک اپنے لئے زمین خریدے اور اسکا مقصد یہ ھو کہ اس زمین کی مٹی بیچ کر فائدہ کمائے، تو کیا ایسی زمین انفال میں شمار ھوگی یا نھیں؟ اور اس فرض پر کہ انفال میں شمار نہ ھو تو کیا حکومت کو حق ھے کہ اس مٹی پر ٹیکس وصول کرے؟ یہ بھی معلوم ھے کہ قانون کے مطابق آمدنی کا دس فیصد شھر کی بلدیہ کو دیا جاتا ھے؟
ج۔ اگر اس قسم کے ٹیکس کی وصول یابی ایران میں مجلس شورائے اسلامی کے پاس کردہ قانون کے مطابق ھے جس کی شورائے نگھبان نے تصدیق کی ھو تو اس میں اشکال نھیں ھے۔
س۱۰۶۶۔ کیا میونسپل بورڈ کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ شھر کی تعمیر وغیرہ کے سلسلے میں ندی، نھر کے ریت سے فائدہ اٹھائے اور بصورت جواز اگر ( میونسپل بورڈ کے علاوہ ) کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ میری ملکیت ھے تو ا س دعوے کی سماعت ھوگی یا نھیں؟
ج۔ میونسپلٹی بورڈ کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ھے اور بڑی نھروںکے احاطہ کی ملکیت کے سلسلہ میں کسی شخص کے دعویٰ کی سماعت نھیں کی جائے گی۔
س۱۰۶۷۔ خانہ بدوش قبائلی لوگوں کو چراگاھوں کے تصرف میں جو حق اولویت ھر قبیلے کی اپنی چراگاہ کی نسبت ھوتا ھے، کیا وہ اس قصد کے ساتھ کوچ کرنے کے باوجود کہ دوبارہ اسی جگہ مراجعت کریں گے ، ختم ھوجاتا ھے؟ واضح رھے کہ یہ کوچ اور مراجعت دسیوں سال سے اسی طرح رھی ھے اور رھے گی؟
ج۔ حیوانات کی چراگاہ کے سلسلہ میں ان کے کوچ کرجانے کے بعد ان کے لئے شرعی حق اولویت کا ثابت ھونا محل اشکال ھے اور اس سلسلہ میں احتیاط بھتر ھے۔
س۱۰۶۸۔ ایک گاوٴں میں چراگاہ اور زرعی زمینوں کی سخت قلت کی وجہ سے اس گاوٴں کے عمومی اخراجات چراگاھوں کی سبز گھاس فروخت کرکے پورے کئے جاتے ھیں اور یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آج تک جاری ھے۔ لیکن مسئولین اب اس کام سے منع کرتے ھیں۔ گاوٴں والوں کے فقر اور ناداری اور اسی کے ساتھ چراگاھوں کے غیر آباد ھونے کے پیش نظر کیا ، اس گاوٴں کی مجلس شوریٰ کو یہ حق حاصل ھے کہ وہ گاوٴں والوں کو چراگاہ کی گھاس بیچنے سے منع کردے اور اس کو گاوٴں کے عمومی اخراجات پورے کرنے کے لئے مختص کردے؟
ج۔ ان عمومی چراگاھوں کی گھاس کو فروخت کرنا کسی کے لئے جائز نھیں ھے جو کسی کی شرعی ملکیت نھیں ھیں۔ لیکن جو شخص حکومت کی طرف سے جو گاوٴں کے امور کا مسئول ھے وہ گاوٴں کی فلاح و بھبود کے لئے اس شخص سے کچھ وصول کرسکتا ھے جسے چراگاہ میں مویشی چرانے کی اجازت دے۔
س۱۰۶۹۔ کیا خانہ بدوش قبائلی سردی اور گرمی کی ان چراگاھوں کو ، کہ جھاں وہ دسیوں سال سے گھوم پھر کرآتے ھیں، اپنی ملکیت بناسکتے ھیں؟
ج۔ وہ طبیعی چراگاھیں جو ماضی میں کسی کی ملکیت نھیں تھیں وہ انفال اور عمومی اموال میں شامل ھیں اور ولی امر مسلمین کو ان پر اختیار ھے اور وہ خانہ بدوشوں کے وھاں گھوم پھر کر آنے سے ان کی ملکیت نھیں بن سکتی۔
س۱۰۷۰۔ خانہ بدوشوں کی چراگاھوں کی خرید و فروخت کب صحیح ھے اور کب صحیح نھیں ھے؟
ج۔ ان غیر مملوکہ چراگھوں کی خرید و فروخت صحیح نھیں ھے جو انفال اموال عامہ کا جزو ھیں۔
س۱۰۷۱۔ ھم چرواھے ایک جنگل میں مویشی چراتے ھیں۔ پچاس سال سے بھی زیادہ ھمارا یھی پیشہ ھے۔ یہ اس جنگل کی شرعی ملکیت ھونے کی موروثی سند ھمارے پاس موجود ھے اس کے علاوہ یہ جنگل امیرالمومنین ﷼، سید الشھداء اور حضرت ابو الفضل العباس ﷼ کے نام وقف ھے، مویشیوں کے مالک اس جنگل میں زندگی بسر کررھے ھیں اور اس میں ان کے گھر زرعی زمینیں اور باغات ھیں لیکن کچھ عرصہ پھلے جنگل کے نگھبان ھمیں وھاں سے نکال کر اس پر قابض ھونا چاھتے ھیں کیا وہ ھمیں اس جنگل سے باھر نکالنے کا حق رکھتے ھیں یا نھیں؟
ج۔ وقف کا صحیح ھونا اس پر موقوف ھے کہ اس کی شرعی ملکیت پھلے ثابت ھو جیسا کہ میراث کے ذریعہ منتقل ھونا بھی اس بات پر موقوف ھے کہ اس سے پھلے وہ مورث کی شرعی ملکیت ھو پس جنگل اور قدرتی چراگاھیں جو کسی کی ملکیت نھیں ھیں اور اس سے پھلے انھیں کسی نے زندہ و آباد نھیں کیا ھے اور نہ وہ کسی کی ملکیت رھی ھیں کہ ان کا وقف صحیح ھو یا وہ میراث قرار پائیں۔ بھر حال جنگل کا وہ حصہ جو کھیت یا مسکن کی صورت میں یا ان سے مشابہ کسی صورت میں آباد ھے اور وہ شرعی لحاظ سے ملکیت بن گیا ھے۔ اگر وہ وقف ھے تو شرعی لحاظ سے متولی کو اس میں تصرف کا حق ھے لیکن جنگل و چراگاہ کا وہ حصہ جو قدرتی جنگل یا چراگاہ ھے تو وہ اموال عامہ میں سے ھے اور انفال ھے اور قانون کے مطابق وہ اسلامی حکومت کے اختیار میں ھے۔
س۱۰۷۲۔ کیا مویشیوں کے ان مالکوں کا جن کے پاس جانوروں کو چرانے کی اجازت ھے، ایسے آباد کھیتوں میں ، جو چراگاھوں سے ملحق ھیں، خود کو اور مویشیوں کو کھیت کے پانی سے سیراب کرنے کے لئے مالک کی اجازت کے بغیر کھیت میں اترنا جائز ھے؟
ج۔ صرف چراگاھوں میں چرانے کی اجازت ھونا دوسروں کی ملکیت میں وارد ھو کر ان کے پانی سے سیراب ھونے کے جواز کے لئے کافی نھیں ھے پس مالک کی اجازت کے بغیر ان کو ایسا کرنا جائز نھیں۔

Add comment


Security code
Refresh