www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

اجتھاد کی تعریف

آج کل اجتھاد و تقلید کا مسئلہ موضوع سخن بنا ھوا ھے ۔ آج بھت سے افراد یہ پوچھتے نظر آتے ھیں یا اپنے ذھن میں سوچتے ھیں کہ اسلام میں اجتھاد کی کیا حیثیت ھے ؟ اسلام میں اس کا ماخذ کیا ھے ؟تقلید کیوں کی جائے ؟

 اجتھاد کے شرائط کیا ھیں ؟ مجتھد کی ذمہ داریاں کیا ھیں ؟ مقلد کے فرائض کیا ھیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔

اجمالی طور پر ، اجتھاد کا مطلب ”دینی مسائل میں مھارت حاصل کرنا اور صاحب نظر ھونا ھے “ لیکن شیعوں کے نقطہ ٴ نظر سے دینی مسائل میں صاحب رائے ھونے کی دو صورتیں ھیں : جائز اور ناجائز ، اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ھیں جائز و ناجائز ۔

ناجائز اجتھاد

شیعی نظرنقطہ ٴ نظر سے ناجائز اجتھاد کا مطلب ” قانون سازی ھے یعنی مجتھد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہ ھو ۔ اسے اصطلاح میں ” اجتھاد بالرائے “ کھتے ھیں ۔شیعی نقطہ ٴ نظر سے اس قسم کا اجتھاد منع ھے لیکن اھل سنت اسے جائز سمجھتے ھیں ۔ اھل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ھیں تو کھتے ھیں :” کتاب ، سنت ، اجتھاد “۔اور اجتھادسے مراد اجتھادبالرائی لیتے ھیںجسے وہ قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ھیں ۔

اس اختلاف نظر کا سبب اھل سنت کا یہ نظریہ ھے کہ : کتاب و سنت کے ذریعہ وضع ھونے والے قوانین محدود ھیں ،جبکہ واقعات و حادثات لامحدود ھیں لھذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ھے جس کے سھارے الٰھی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وھی ھے جسے ھم ” اجتھاد بالرائے “ کے نام سے یاد کرتے ھیں ۔ انھوںنے اس سلسلہ میں رسول اکرم  سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ھیں ۔ من جملہ یہ کہ رسول خدا  جس وقت معاذ بن جبل کو یمن بھیج رھے تھے، ان سے دریافت فرمایا کہ تم وھاں کیسے فیصلے کرو گے ؟ معاذ نے کھا کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت  نے فرمایا : اگر کتاب خدا میں تمھیں اس کا حکم نہ مل سکا ؟ معاذ نے عرض کیا : رسول خدا  کی سنت سے استفادہ کروں گا ۔ حضرت نے فرمایا : اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کھا : اجتھاد بالرائے “ یعنی اپنی فکر، اپنی رائے ، اپنے ذوق اور اپنے سلیقہ سے کام لوں گا۔ کچھ دیگر حدیثیں بھی اس سلسلہ میں ان لوگوں نے نقل کی ھیں ۔

” اجتھاد بالرائے “ کیا ھے اور کس طرح انجام پانا چاھئے اس سلسلہ میں اھل سنت کے یھاں خاصا اختلاف ھے ۔ شافعی کی مشھور و معروف کتاب ” الرسالہ “ جو علم اصول فقہ میں لکھی گئی پھلی کتاب ھے ، میں ایک باب ، باب اجتھاد کے نام سے بھی ھے۔ شافعی کو اس کتاب میں اس بات پر اصرار ھے کہ احادیث میں ”اجتھاد “ کا جو لفظ استعمال ھوا ھے اس سے صرف ’ ’قیاس “ مراد ھے ۔ قیاس کا مطلب اجمالی طور پریہ ھے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ھوئے اپنے سامنے در پیش قضیہ میں ان ھی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں ۔

لیکن بعض دوسرے سنّی فقھاء نے اجتھاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نھیں جانا ھے ، بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ھے ۔ استحسان کا مطلب یہ ھے کہ مشابہ موارد کو مد نظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائز ہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ھو نیز ھمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں ۔ اسی طرح ”استصلاح “ بھی ھے ۔ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ۔ایسے ھی ” تاوّل “ بھی ھے یعنی اگر چہ کسی دینی نص ، کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ھے لیکن بعض وجوھات کے پیش نظر ھمیں نص کے مفھوم و مدلول کو نظر انداز کر کے اپنی ” اجتھادی رائے “ مقدم کرنے کا حق ھے ۔ اس سلسلہ میں یعنی نص کے مقابلہ میں اجتھاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ھیں اور شاید سب سے اچھی کتاب ” النص و الاجتھاد “ ھے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ھے ۔

شیعہ نقطہ ٴ نظر سے اس طرح کا اجتھاد ناجائز ھے ، شیعوں اور ان کے ائمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیادھی ، یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نھیں ھیں لھذا ھمیں اپنی فکر و رائے سے اجتھاد کرنے کی ضرورت ھے ،درست نھیں ھے ۔ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ھیں کہ ھر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ھے کتاب ” وافی “ میں باب البدع و المقائیس “ کے بعد ایک باب ھے جس کا عنوان یہ ھے :” بالرد الی الکتاب و السنة و انہ لیس شئی من الحلال و الحرام و جمیع ما یحتاج الیہ الناس الا و قد جاء فیہ کتاب او سنّة “ ( ۱ )

قیاس و اجتھاد کو قبول یا اسے رد کرنے سے متعلق دو جھتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ھے ۔ ایک یھی جھت جسے بیان کیاگیاھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سر چشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ھوئے اس سے استنباط احکام اسلامی کیاجائے اور کچھ ایسی چیزیں جن کا حکم وحی کے ذریعہ بیان نھیں ھوا ھے مجتھدوں کا فریضہ ھے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم تلاش کریں۔دوسری جھت یہ ھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل مثلا خبر واحد سے استفادہ کرتے ھیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ھے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ھے اسے طریقیت کی حیثیت دیں ۔

شیعہ فقہ میں قیاس و اجتھاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نھیں ھے۔ پھلی جھت اس لئے معتبر نھیں ھے کہ ھمارے پاس کوئی ایسا موضو ع نھیں ھے جس کا حکم ( چاھے کلی طور پر سھی ) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ھو ۔ دوسری جھت اس لئے باطل ھے کہ قیاس و اجتھاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ھے اور یہ شرعی احکام میں بھت زیادہ خطا و لغزش کاموجب ھے ۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وھی پھلی جھت ھے اگر چہ اصولیوں کے یھاں دوسری جھت زیادہ مشھور ھوئی ھے ۔

” اجتھاد “ کا حق اھل سنت کے یھاں زیادہ دنوں تک باقی نھیں رہ سکا شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں کیوں کہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رھے ، خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف کوجائز سمجھاجاتارھے اور ھر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رھے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رھے گا شاید یھی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتھاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشھور مجتھدوں اور اماموں : ابو حنیفہ ، شافعی ، مالک بن انس ، احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لئے جائیں اور انھیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتھد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پھلے ( ساتویں صدی میں ) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی ۔

جائز اجتھاد

لفظ اجتھاد ، پانچویں صدی ھجری تک اسی طرح مخصوص معنیٰ میں ۔ (قیاس و اجتھاد بالرائے جو شیعہ نقطۂ نظر سے نا جائز ھے ) استعمال ھوتا تھا ۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں ” باب الاجتھاد“ اسے رد کرنے اور باطل و نا جائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے ۔جیسے شیخ طوسی (رہ)نے اپنی کتاب ”عدہ “ میں اسے رد کیا ھے لیکن آھستہ آھستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنیٰ سے باھر آگیا اور خود سنی علماء نے بھی ( جیسے ابن حاجب ”مختصر الاصول “ میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ھے اور مدتوں جامعة الازھر کے درسی نصاب میں شامل رھی ھے اور شاید آج بھی شامل ھو ۔ ان سے پھلے غزالی نے اپنی مشھور کتاب ” المستصفیٰ “ میں ) لفظ اجتھاد بالرائے کو اس مخصوص معنیٰ میں استعمال نھیں کیا ھے جو کتاب و سنت کے مقابلہ میں ھے ، بلکہ انھوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عام معنیٰ میں استعمال کیا ھے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ھے ” استفراغ الوسع فی طلب الحکم الشرعی “ اس تعریف کے مطابق اجتھاد کا مطلب ” معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعہ شرعی احکام کے استنباط کی انتھائی کوشش کرنا ھے “ ۔ اب رھی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ھیں ؟ آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ھیں یا نھیں ؟ یہ ایک علیٰحدہ موضوع ھے ۔

 پانچویں صدی سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتھاد کے پھلے سے قائل تھے ۔ یہ اجتھاد جا ئز اجتھاد ھے ۔ اگر چہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنیٰ ومفھوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نھیں لینا چاھا اور اس کے استعمال سے پرھیز نھیں کیا ۔ ایسا معلوم ھوتا ھے کہ شیعہ علماء بھت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجھتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے ۔ مثلا ً اھل سنت ، اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے ۔ جبکہ شیعہ اسے نھیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ھیں لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکہ دیا ۔ اھل سنت کھتے تھے شرعی دلیلیں چار ھیں : کتاب ، سنت ، اجماع ، اجتھاد ( قیاس ) شیعہ علما ء نے کھا: شرعی دلیلیں چار ھیں : کتاب ، سنت ، اجماع ، عقل انھوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکہ دیا۔

بھر کیف اجتھاد ، رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ھونے لگا ، یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال کرنا اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مھارت ضروری ھے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ھیں ۔علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ھوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استناد و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ھے ۔ جیسے عربی ادب ، منطق ، تفسیر قرآن ، حدیث ، رجال حدیث ، علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم ،لھذااب وہ مجتھد اس شخص کو کھتے ھیں جو ان تمام علوم میں مھارت رکھتا ھو ۔

 لیکن گمان غالب یہ ھے کہ شیعوں میں اجتھاد و مجتھد کا لفظ اس معنیٰ میں سب سے پھلے علامہ حلی نے استعمال کیا ھے ۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب ” تھذیب الاصول “ میں ،” باب القیاس “ کے بعد ”با ب الاجتھاد “ تحریر فرمایا ھے ۔ وھاں انھوں نے اجتھادکو اسی معنیٰ میں استعمال کیا ھے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ھے اور رائج ھے ۔

پس شیعی نقطہ ٴ نظر سے وہ اجتھاد ، نا جائز ھے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنیٰ میں استعمال ھوتا تھا ۔ اب چاھے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سر چشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ لیکن جائز اجتھاد سے مراد فنی مھارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ھے ۔

پس یہ جو کھا جاتا ھے کہ اسلام میں اجتھاد کیا چیز ھے ؟ اس کی کیا ضرورت ھے ؟ اس کا جواب یہ ھے کہ اجتھاد جس معنیٰ میں آج استعمال ھو رھا ھے اس سے مراد صلاحیت اور فنی مھارت ھے ۔ ظاھر ھے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاھتا ھے اس کے لئے قرآن کی تفسیر ، آیتوں کے معانی ، ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت نیز معتبر وغیر معتبر حدیثوں میں تمیز دیکرمسائل کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ھو ۔ مذھب کے اجماعی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ھو ۔خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر ھوئے ھیں ، ان سے آگاھی رکھتاھودنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق ، تمرین ،تجربہ اور ممارست ضروری ھے ۔ ایک ماھر صنعتکار کی طرح اسے یہ معلوم ھونا چاھئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ھے ۔ اس میں مھارت و استعداد ھونی چاھئے خاص طور سے کون سی حدیثوں میں بھت زیادہ الٹ پھیر اور جعل سازی ھوئی ھے ۔ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط و ملط ھیں اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ھونی چاھئے ۔ مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراھم ھونی چاھئے کہ واقعاً اس میں اھلیت ، قابلیت ، صلاحیت اور فنی مھارت پیدا ھو جائے ۔

Add comment


Security code
Refresh