www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

س۲۳۔ دو عادل گواھوں کی گواھی سے ایک مجتھد کی صلاحیت ثابت ھوجانے کے بعد کیا اب میرے اوپر اس سلسلہ میں کسی اور سے بھی سوال کرنا واجب ھے ؟

ج۔ کسی معین جامع الشرائط مجتھد کی صلاحیت کے اثبات کے لئے اھل خبرہ (اھل علم)حضرات میں سے دو عادل گواھوں کی گواھی پر اعتماد کافی ھے اور اس سلسلہ میں مزید افراد سے سوال کرنا ضروری نھیں ھے۔

س۲۴۔ مرجع تقلید کے انتخاب اور اس کا فتویٰ حاصل کرنے کے کیا طریقے ھیں؟

ج۔ مرجع تقلید کے اجتھاد اور اس کی اعلمیت کے اثبات کے لئے ضروری ھے کہ یا انسان خود عالم ھو اور تحقیق کرے یا اسے علم حاصل ھوجائے چاھے ایسی شھرت کے ذریعہ ھی ، جس سے یقین ھوجائے یا اطمینان حاصل ھوجائے یا اھل خبرہ میں سے دو عادل گواھی دیں۔

مرجع تقلید سے فتویٰ حاصل کرنے کا طریقہ یہ ھے کہ خود اس سے سنے یا دو عادل نقل کریں بلکہ ایک ھی عادل کا نقل کرنا کافی ھے یا پھر ایسے معتبر انسان کا نقل کرنا بھی کافی ھے جس کی بات پر اطمینان ھو یا اس کی توضیح المسائل میں دیکھے جو غلطیوں سے محفوظ ھو۔

س۲۵۔ کیا مرجع کے انتخاب کے لئے وکیل بنانا صحیح ھے؟ جیسے بیٹا اپنے باپ کو اور شاگرد اپنے استاد کو اپنا وکیل بنائے؟

ج۔ اگر وکالت سے مراد جامع الشرائط مجتھد کی تحقیق کو باپ، استاد یا مربی وغیرہ کے سپرد کرنا ھے تواس میں کوئی حرج نھیں ھے، ھاں اگر اس سلسلہ میں ان کا قول یقین اور اطمینان کے قابل ھو یا اس میں دلیل وشھادت کے شرائط موجود ھوں تو ان کا قول شرعاً معتبر اور حجت ھے۔

س۲۶۔ میں نے چند مجتھدین سے پوچھا کہ اعلم کون ھے۔ انھوں نے جواب دیا فلاں شخص کی طرف رجوع کرنے سے انسان بری الذمہ ھے تو کیا میں ان کی بات پر اعتماد کرسکتا ھوں جبکہ مجھے معلوم نھیں کہ موصوف اعلم ھیں یا نھیں یا مجھے ان کے اعلم ھونے کے بارے میں احتمال ھے یا اطمینان ھے کہ وہ شخص اعلم نھیں ھے اس لئے کہ دوسرے فقھا کے بارے میں بھی مثلاً ایسی ھی شھادت اور گواھی موجود ھے؟

ج۔ جب کسی جامع الشرائط مجتھد کے اعلم ھونے پر شرعی دلیل قائم ھوجائے تو جب تک اس دلیل کے خلاف کسی اور دلیل کا علم نہ ھو وہ حجت ھے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ھے ، یقین یا اطمینان حاصل کرنا اس کے لئے شرط نھیں ھے اور نہ اس کے خلاف گواھیوں کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ھے۔

س۲۷۔ کیا وہ شخص شرعی احکام کے جوابات دے سکتا ھے جس کے پاس اجازہ نھیں ھے اور وہ بعض مقامات پر اشتباہ سے بھی دوچار ھوتا اور احکام کو غلط بیان کردیتا ھے اور اس حالت میں کیا کیا جائے جبکہ اس نے توضیح المسائل سے پڑھ کر مسئلہ بیان کیا ھو؟

ج۔ مجتھد کا فتویٰ نقل کرنے اور شرعی احکام بیان کرنے کے لئے اجازہ شرط نھیں ھے لیکن اگر اس سے غلطی یا اشتباہ ھوتا ھے تو اس کے لئے بیان اور نقل کرنا جائز نھیں ھے۔ اور اگر کسی ایک مسئلہ بیان کرنے میں اس سے غلطی ھوجائے اور بعد میں اس کی طرف متوجہ ھو تو اس پر واجب ھے کہ سننے والے کو اس غلطی سے آگاہ کردے۔ بھر حال سننے والے کو بیان کرنے والے کی بات پر اس وقت تک عمل کرنا جائز نھیں ھے جب تک اس کے قول اور اس کی بیان کردہ بات کے صحیح ھونے پر اسے اطمینان نہ ھوجائے۔

 

 

Add comment


Security code
Refresh