www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

 

س۱۔ تقلید کا واجب ھونا خود تقلیدی مسئلہ ھے یا اجتھادی ؟

ج۔ اجتھادی اور عقلی مسئلہ ھے۔

س۲۔ آپ کے نزدیک احتیاط پر عمل کرنا بھتر ھے یا تقلید پر؟

ج۔ چونکہ احتیاط پر اس وقت عمل ھوسکتا ھے جب اس کے موارد و مواقع کو جانتا ھو اور احتیاط کے طریقوں سے واقف ھو اور ان دونوں کو بھت ھی کم لوگ جانتے ھیں اسکے علاوہ احتیاط پر عمل کرنے میں عام طور پر بھت زیادہ وقت صرف ھوتا ھے، اس بنا پر جامع الشرائط مجتھد کی تقلید بھتر ھے۔

س۳۔ احکام میں احتیاط کا دائرہ اور اس کے حدود فقھا کے فتوو ٴں میں کیا ھیں ؟ اور کیا سابق علماء کے فتوو ٴں کو بھی اس میں شامل کرنا واجب ھے؟

ج۔ وجود موارد میں احتیاط سے مراد ان تمام فقھی احتمالات کی رعایت کرنا ھے جن کے واجب ھونے کا احتمال پایا جاتا ھو۔

س۴۔ چند ھفتوں کے بعد میری بیٹی بالغ ھونے والی ھے اور اس وقت اس پر اپنے لئے مرجع تقلید کا انتخاب واجب ھوجائے گا اور چونکہ یہ امر اس کے لئے مشکل ھے لھذا اس سلسلہ میں ھماری ذمہ داری کیا ھے؟

ج ۔ اگر وہ اس سلسلے میں اپنے شرعی وظیفہ کی جانب متوجہ نہ ھو تو اس سلسلے میں اس کی ھدایت و رھنمائی آپ کی ذمہ داری ھے۔

س۵۔ مشھور ھے کہ موضوع کی تشخیص مکلف کا کام ھے اور حکم کی تشخیص مجتھد کے ذمہ ھے۔ پس جن موضوعات کی تشخیص مرجع خود کرتا ھے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ھے؟

کیا ا س تشخیص کے مطابق عمل کرنا واجب ھے کیونکہ ھم مرجع تقلید کو ایسے بھت سے موارد ومیں بھی دخیل پاتے ھیں؟

ج۔ جی ھاں ! موضوع کو مشخص کرنا مکلف کا کام ھے لھذا اپنے مجتھد کی تشخیص کا اتباع مکلف پر واجب نھیں ھے، مگر یہ کہ وہ اس تشخیص سے مطمئن ھو یا موضوع کا تعلق استنباطی موضوعات سے ھو۔

س۶۔ روزمرہ کے شرعی مسائل ، جن سے مکلف کا سابقہ پڑتا رھتا ھے ، کیا ان کا علم حاصل نہ کرنے والا گناھگار ھے؟

ج۔اگر شرعی مسائل کا علم حاصل نہ کرنا کسی واجب کے چھوٹ جانے یا فعل حرام کے ارتکاب کا سبب بنے تو گناھگار ھے۔

س۷۔ جب ھم بعض کم علم لوگوں سے پوچھتے ھیں کہ تمھارا مرجع تقلید کون ھے؟ تو وہ کھتے ھیں ھم نھیں جانتے یا کھتے ھیں کہ فلاں مرجع کی تقلید کرتے ھیں جبکہ وہ خود کو اس بات کا پابند نھیں سمجھتے کہ اس کی توضیح المسائل کو دیکھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ ایسے لوگوں کو اعمال کا کیا حکم ھے؟

ج۔ اگر ان کے اعمال احتیاط یا واقع یا اس مجتھد کے فتوے کے مطابق ھیں جس کی تقلید ان پر واجب تھی تو ان کو صحیح مانا جائے گا۔

س۸۔ جن مسائل میں مجتھد اعلم احتیاط واجب کا قائل ھے، کیا ھم ان میں اس کے بعد کے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ھیں ؟ اور دوسر سوال یہ ھے کہ اگر اس کے بعد والا اعلم بھی اس مسئلہ میں احتیاط واجب کا قائل ھو تو کیا ھم اس مسئلے میں ان دونوں کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کرسکتے ھیں؟ اور اگر تیسرا بھی اسی بات کا قائل ھو تو کیا ھم ان کے بعد والے اعلم کی طرف رجوع کریں گے ؟ ۔۔ الخ ۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیجئے ۔

ج۔ اس مجتھد کی طرف رجوع کرنے میں جو اس مسئلہ میں احتیاط کا قائل نھیں بلکہ اس میں ا سکا صریح فتویٰ موجود ھے، کوئی حرج نھیں ھے۔ ھاں اعلم فالاعلم کی رعایت کرنا ھوگی۔

 

 

Add comment


Security code
Refresh