www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

207219
قافلہ انسانی آج جس تیزی سے یکے بعددیگرے ارتقائی مراحل طے کرتے ھوئے آگے بڑھ رھا ہے اسے دیکھتے ھوئے کھا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی نھیں ہے جو اس کے دائرہ اختیار سے باھر ھو، اس کے عزم و ارادہ کے آگے ھر چیز بے بس ہے اس وسیع کائنات کی کوئی شے اس کے قلمروِ اختیار سے باھر نھیں، پوری کائنات میں اسی کے اختیار و عمل کا سکہ چلتا ہے ۔
یہ سائنس کی ھنر نمائیاں ،یہ علم و حکمت کی جولانیاں ، یہ ترقی و کامیابی کی شھنائیاں، سب کے سب انسانیت کے شاندار مستقبل کی تعمیر کا عندیہ دے رھی ہیں ۔
نظر اٹھا کر تو دیکھیں ھرطرف کامیابیوں کی شھنائیاں بج رھی ہیں ، خوشیوں کے میلے ہیں ،انسانی خواھشات کے وسیع سمندر میں تکمیلِ آرزو کے سفینے رواں دواں ہیں، مسرتوں کی دل آویزیوں کے ساتھ ھرسو رونقوں کے دیپ جل رھے ہیں، انسان کی رنگ برنگی آرزوئیں تتلیوں کی طرح دنیاوی نعمات کے پھولوں سے لپٹی عرق تسکین تلاش کر رھی ہیں ، ھر طرف انسان کی ھنر نمائیوں کی چراغانی ہے۔
آج نہ صرف پانی ھوا ،فضا اور خلا انسان کے قبضہ میں ہے بلکہ انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کمال کی چوٹیوں کو طے کرنے کے لئے کمر ھمت باندھ لے تو اقالیم سبعہ اس کے قدموں میں سجدہ ریز نظر آئیں گے ۔
بقول شھید مطھری ''انسان کی علمی اور فنی طاقت کے لئے کوئی قلعہ نا قابل تسخیر نھیں ہے سوائے ایک قلعہ کے اور وہ ہے انسانی روح اور اس کے نفس کا قلعہ ۔
پھاڑ ، سمندر ، خلا ، زمین ، آسمان ، یہ سب کے سب اس کی علمی اور فنی جولانیوں کے سامنے بے بس ہیں واحد وہ مرکز جو اس کی عمل داری سے باھر ہے وہ وھی چیز ہے جو خود انسان سے سب سے نزدیک ہے لیکن اسے فتح کرنا آسان نھیں بقول مولانا رومی :
کشتن اين کار عقل و هوش نيست
شیر باطن سخرئہ خرگوش نیست ۔ (١)۔
اب یہ اتفاق ھی ہے کہ انسان کے آرام و سکون ، امن و عدالت ، آزادی و مساوات اور انسان کی فلاح و کامیابی کا سب سے خطرناک دشمن خود اسی کے قلعہ میں چھپاہے اور اس کی گھات میں بیٹھا ھوا ہے ''اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک تمھارا سب سے بڑا دشمن تمھارا وہ نفس ہے جو تمھارے پھلو میں ہے ،،﴿۲﴾
سب سے بڑے دشمن سے بے خبری ھی کا نتیجہ ہے کہ کائنات کو تسخیر کر لینے کے بعد بھی انسان اپنے سرکش نفس کو قابو کرنے میں ناکام ہے اور شاید یھی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی کرشما سازیوں اور ھنر آفرینیوں کے باوجود آج انسانی اقدار انسانیت کا ماتم کرتے نظر آ رھے ہیں اس کی مثال وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اقتصادی اور مالی و رفاھی اعتبار سے دنیا میں سر فھرست ہیں ۔ان کی جیسی ٹکنالوجی کسی کے پاس نھیں ، ان کے جیسے جنگی آلات کسی کے پاس نھیں ان کا جیسا مضبوط مواصلاتی نظام کسی کے پاس نھیں، ان کے جیسے ذرائع ابلاغ کسی کے پاس نھیں وہ رفاھی اور مالی اعتبار سے آج مثال بننے کے باوجود اپنے عوام کو سکون مھیہ کرانے میں ناکام ہیں اور ماھرین نفسیات جب بھی سروے کرتے ہیں تو یھی بات سامنے آتی ہے کہ بے چینی اور depression)(میں بھی سب سے آگے یھی ممالک ہیں۔ معتبر رپورٹوں کے مطابق سب سے زیادہ خود کشی کی شرح بھی انھیں ممالک میں پائی جاتی ہے ۔
خود کشی کی سب سے بڑی وجہ بھی یھی ہے کہ جب انھیں سکون نصیب نھیں ھوتا اور زندگی بیزار سی لگنے لگتی ہے تو اس بیزاری کاآخری حل خود کشی کے طور پر سامنے آتا ہے اور نہ صرف خود کشی بلکہ تدریجی اور خاموش موت کے ذمہ دار بھی یھی ممالک ہیں اور یھی وجہ ہے کہ ''افغانستان ''اور'' کولمبیا ''جیسے منشیات کی پیداوار کے ممالک کا سب سے بڑا بازار بھی امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جھاں دنیا کی سب سے زیادہ منشیات سپلائی ھوتی ہے ۔
اگر یہ باتیں افریقا کے قحط زدہ علاقوں، ھندوستان ،پاکستان بنگلا دیش، یا دیگر غریب و فقیر ممالک کے لئے کھی جاتیں تو بات کچھ سمجھ میں آ سکتی تھی کہ فقیری ، غربت یا بیکاری سے تنگ آ کر لوگ منشیات کا استعمال کر رھے ہیں یا خود کشی کے ذریعہ خود کو ھلاک کر رھے ہیں مگرطرہ تو یہ ہے کہ جس طرح کی منشیات یہ ترقی یافتہ ملک استعمال کرتے ہیں ان کو استعمال کا سوچ کرھی غریب آدمی کوھارٹ اٹیک ھو سکتا ہے کیونکہ ان کی قیمت بھی ایک عام آدمی اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ادا نھیں کر سکتا ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ غربت یا فقیری منشیات کے استعمال اور خود کشی کی علت نھیں ہے بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔
ان ممالک کے تجزیاتی مطالعہ کی روشنی میں یہ بات کھی جا سکتی ہے کہ مادیت کی چکا چوند میںیہ بھول گئے ہیں کہ جس طرح انسان کے جسم کو رشد و نمو کے لئے غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح بھی بغیر غذا کے رشد و نمو حاصل نھیں کر سکتی اورروح اس وقت تک پرسکون نھیں ھو سکتی جب تک اس کے معنوی تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے۔
انھوں نے جسمانی تقاضوں کی تسکین کے وسائل پر تو افراط کی حد تک توجہ کی لیکن روح کے تقاضوں کو بھول گئے اور شاید یھی وجہ ہے کہ یہ لوگ مادی اعتبار سے تو بھت آگے ہیں لیکن روحی اعتبار سے قحط زدہ علاقوں میں بسنے والے ننگے بھوکوں سے بھی زیادہ بھوکے ہیں یہ اپنی روحانیت کی بھوک مٹانے کے لئے ادھر ادھر ھاتھ پیر مارتے ہیں اور جب کھیں سکون نھیں ملتا تو موت سے ھم آغوش ھو جاتے ہیں ھماری اس بات کا ثبوت وہ جدید تحقیقات ہیں جن سے یہ بات ثابت ھوتی ہے کہ شراب اور دوسری منشیات کا استعمال مذھبی افراد میں دوسروں سے کم ہے ۔
آج تیزی کی ساتھ ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن قافلہ انسانی گرچہ ظاھری ترقی کے زیورروں سے خود کو آراستہ کئے ایک دلفریب نظارہ پیش کر رھاہے اور اپنے حسن و جمال ،اپنی رعنائیوں اور دلربا ادوائوں سے ھر ایک کو مسحور کئے ھوئے انسانی ذھن کی کرشماتی صلاحیتوں کے بل پر داد تحسین حاصل کر کے خود میں مست مگن اپنی ظاھری کامیابیوں پر ناز کرتا نظر آرھا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے ایسے ز خم ہیں جو اس انسانی قافلہ کی زخمی روح میں پھیلتے چلے جا رھے ہیں اور اسے ان کی خبر بھی نھیں، مادیت کے جھلماتے حسین اور دبیز پردوں نے اس کی آنکھوں کے پتلیوں میں ایسا جال تان دیا ہے کہ یہ چاہ کر بھی حقیقتوں کا سامنا نھیں کر سکتا ۔
یہ چاھتے ھوئے بھی مچلتی ھوئی روح کے زخموں سے رستا ھوا لھو نھیں دیکھ سکتا، یہ چاھتے ھوئے بھی نالہ و شیون کرتی ھوئے انسانی اقدار کی چیخ پکار کو نھیں سن سکتا ۔یہ بھوک و افلاس سے تڑپتے ھوئے ناداروں کو دیکھتا ہے تو اس کی روح بے چین ھو جاتی ہے لیکن ایک ھی لمحے میں منظر بدل جاتا ہے ،پردہ ذھن پر بننے والی بے یارو مدد گار ننگے بھوکے دو روٹی کے محتاج لوگوں کی تصویر ابھی اس کے قرطاس دل پر ٹھہر نھیں پاتی کہ موسیقی کے دھن پر تھرکتے ھوئے بدن اس کے ذھن و دل و دماغ پر مسلط ھو کر اسے بھی زمانے کے ساتھ تھرکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، جذبہ ھم دردی سسکیاں لے کر دم توڑ دیتا ہے بے یار و مددگار فقیر و نادار لوگ اپنی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل لئے پیٹ پر پتھر باند کر سو جاتے ہیں اور یوں روح کے تقاضوں کا گلا گھونٹ کر روح و جسم کے ما بین متضاد خواھشات کا طلاطم تھم جاتا ہے ۔
یہ ظلم و ستم کی چکی میں پستے ھوئے یتیم ،لاوارث غریب ،پسماندہ اور ناتواں لوگوں کی فریادوں کو سنتا ہے لیکن اس سے پھلے کہ اس کی انسانیت ،اس کا ضمیر ان کے لئے کچھ کرنے پر وادار کرے چھلکتے جاموں کی کنھکھناھٹ اور کیف و سرور میں مدھوش نغموں کی مترنم آزوازیں اسے اپنے ساتھ اتنی دور لے جاتی ہیں جھاں یہ خود اپنی روح کی چیخ پکار بھی نھیں سن پاتا جو انسانیت کی دھائی دے کر اسے من مانی کرنے سے روکتی ہے لیکن یہ ھر حد کو پار کرتے ھوئے حیوانیت و درندگی کاپجاری بن جاتا ہے اور جب حیوانیت کے دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ کر اٹھاتا ہے تو اس کے نس نس میں درندگی جاگ اٹھتی ہے ۔
اب یہ ظاھر میں تو انسان ھوتا ہے لیکن حلال و حرام کی تمیز نھیں رھتی اس لئے اندر سے خنزیر بن جاتا ہے، اپنے پیٹ کے لئے ھر ایک سے لڑتا ہے ظاھر میں انسان ھوتا ہے لیکن اندر سے سگ آوارہ بن جاتا ہے، مظلوموں پر ظلم کرتا ہے اور کوئی روکے ٹوکے تو بھونکتا ھوا کاٹنے ڈوڑتا ہے، چھین جھپٹ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، ظاھری طور پر تو انسان نظرآتا ہے لیکن اندر سے بھیڑیا بن جاتا ہے یہ کھیں سانپ ،کھیں بچھو، کھیں گرگٹ بنتا ہے لیکن انسان کھیں نھیں رھتا یھی وجہ ہے کھیں باپ اور بیٹی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اڑاتا ہے تو کھیں بھن بھائی کے تقدس کو سر بازار نیلام کرتا ہے ۔
مختصر یہ کہ جو انسان چاند اور سورج پر کمندیں ڈال رھا تھا اگر اس کے پاس واضح اور روشن اخلاقی نمونے نہ ھوں تو وہ خود اپنے وجود کے حصار سے باھر نھیں نکل پاتا بلکہ جتنا زیادہ دنیاوی علم و ٹکنالوجی کو استعمال میں لاتا ہے اتنا ھی زیادہ بڑی تباھی کو بھی وجود میں لاتا ہے ۔
دنیا چاھے جتنا بھی قافلہ انسانی کی ترقی کے گن گائے لیکن یہ بات کسی بھی صاحب بصیرت کی نظروں سے پوشیدہ نھیں کہ جتنا علم و صنعت کی کرشما سازیاں انسانیت کو بام عروج پر پھونچا رھی ہیں اتنا ھی انسانیت اخلاق و معنویت کے بحران میں مبتلا ھوتی جا رھی ہے ۔
دنیا میں تمام تر ترقیوں کے باوجود ، جرائم ، فساد، تباھی ، قتل ، خود کشی ، کی شرحوں میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمنائوں کے ھجوم اور آرزووں کے حصول کے سیلاب میں کوئی بھی ایسا ساحل امن نھیں جھاں انسانیت خود کومحفوظ سمجھ سکے ۔
انسان کی سرکش روح جب سرکشی پر آمادہ ھو جائے اور اس کی بلا خیز تمنائوں میں جب طغیانی آ جائے تو علم وصنعت کی یہ روز افزوں ترقی بھی تخریب میں تیزی کا باعث بن جاتی ہے اور آج یھی ھو رھا ہے۔
شھید مطھری ﴿رح﴾ نے سالھا سال پھلے انسانیت کے درد کو سمجھتے ھوئے انھیں باتوں کے پیش نظر کھا ھوگا : '' اسی لئے آج کا انسان اس قدر علمی کامیابیوں کے باوجود درد انگیز نالے بلند کر رھا ہے ،یہ کیوں نالہ کناں ہے ؟ اس میں کس پھلو سے کمی اور نقص پایا جاتا ہے ؟ کیا اخلاق و عادات اور انسانیت کے بحران کے علاوہ بھی اس میں کوئی کمی پائی جا رھی ہے ؟ آج انسان علمی اور فکری اعتبار سے اس مقام پر پھنچ چکا ہے کہ اب وہ آسمانوں پر سفر کا ارادہ رکھتا ہے، سقراط اور افلاطون جیسے لوگ اس کی شاگردی کا اعزاز قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن روحانیت و اخلاق اور عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ ایک شمشیر بدست وحشی کی مانند ھونے سے زیادہ نھیں ہے اگرچہ ا نسان نے حتی الامکان اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کیا ہے لیکن اپنے آپ کو اور اپنے انداز فکر کو اپنے جذبات و رجحانات کو تبدیل نھیں کر سکا آج کے انسان کی مشکلات کی جڑ اسی جگہ تلاش کرنا چاھیے ﴿٣﴾
آج کے انسان نے علم و فن میں اپنی تمام ترکرشمہ ساز ترقیوں کے باوجود آدمیت اور انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھایا ہے بلکہ وہ اپنے تاریک ترین دور کی جانب پلٹ گیا ہے'' .. ٤ سوال یہ ہے کہ اس انسان کو اس کے تاریک دور سے واپس آج کی دنیا میں کیسے لایا جائے ؟
علامہ اقبال اس کا حل یوں بیان کرتے ہیں ''انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے ، دنیا کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور دنیا پر اثر انداز ھونے والا ایسابنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سماج کے کمال تک پھونچنے کی نھج اور اس کے مبنا کو بیان کر سکے''﴿۵﴾ ۔
یہ تینوں چیزیں صرف دین کے ذریعہ حاصل ھو سکتی ہیں ''مختلف مکاتب ، ادیان اور مذاھب کے درمیان صرف اسلام ہے جو ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔﴿٦﴾
آج انسانیت کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ معنویت اور اخلاق ہے ۔ در حقیقت انسان اپنے گم شدہ وجود کی تلاش میں سرگرداں ہے جو بغیر اخلاق و معنویت کے متصور نھیں ہے ،انسان کی پیاسی روح کو شدت کے ساتھ الھامی تعلیمات کے ان برستے بادلوں کی ضرورت ہے جو ذھن و دل و دماغ کی مرجھائی کلیوں کے ھونٹوں پر بھی زندگی کی مسکراھٹ بکھیر دیں اور یہ کام عقل محض کے خشک جھلستے بیابانوں میں صحرا نوردی سے ممکن نھیں ۔
چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں: '' شک نھیں کہ جدید یورپ نے نظریاتی اور مثالی نظام مدون کئے ۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جو حقیقت صرف اور صرف عقل محض کے رستہ حاصل کی جائے اس میں زندہ اعتقاد کی حرارت نھیں ھو سکتی جو صرف الھام سے ھوتی ہے ،یھی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی اثر نھیں ڈالا جبکہ دین ھمیشہ لوگوں کی ترقی اور انسانی معاشرے میں تبدیلی کا باعث رھا ہے اسی لئے یورپ کی کارگزاریوں کا نتیجہ ایک حیران '' میں '' کی صور ت میں سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ناھم آھنگ جمھوریتوں کے درمیان اپنی تلاش میں سرگرداں ہے،میری بات پر یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسانیت کے اخلاق کی ترقی میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے ' (٧) وہ ساحل نجات جھاں یہ'' میں '' دریائے حیرت میں غوطہ ور ھونے سے بچ کر ابدی سکون سے ھمکنار ھو سکتا ہے وہ''ایمان ''ہے، اگر زندگی کو کوئی چیز حسین بنا سکتی ہے تو وہ ایمان ہے ۔جس کے پاس ایمان نھیں وہ با مقصد و با معنی زندگی کے مفھوم سے کبھی آشنا نھیں ھو سکتا اس لئے شھید مطھری کے بقول '' ایمان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے خواہ وہ عقل ھو یا علم ،ھنر ھو یا صنعت، قانون ھو یا کچھ اور!یہ سب انسان کی جبلی خواھشات کی تسکین اور ان کی تکمیل کے لئے اس کے ھاتھ میں آلہ کار ہیں، صرف قوت ایمانی وہ چیز ہے جو روح کو نئی زندگی دیتی ہے ۔
اخلاق و معنویت کا بحران اس وقت تک نھیں حل ھو سکتا جب تک بنی نوع بشر اپنی پیاسی روحوں کو ایمان کے چشمہ طمانیت سے سیراب نہ کرے اور ان تعلیمات سے آشنا نہ ھو جائے جھاں روح و جسم دونوں کے تقاضوں کے مد نظر ان جامع اصولوں کی نشان دھی کی گئی ہے جو انسان کو انسان بناتے ہیں ۔
آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اخلاق اور معنویت کے بحران سے کیسے مقابلہ کیا جائے ایسے میں ضرورت ہے اس اخلاق کے پیکر کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جس نے جاھلی رسموں اور خود ساختہ سماجی زنجیروں میں جکڑے ھوئے اس عرب کے جاھلی سماج کی علم و اخلاق و تھذیب کے بل پر تعمیر کر کے جینے کے لائق بنا دیا جو فتنہ و فساد کی آگ میں جل رھا تھا، خرافات اور اوھام پرستی کی خار دار جھاڑیوں میں اپنا وجود کھو چکا تھا جھلستے ھوئے بیابانوں ، لق و دق صحرائوں اور ریگزاروں میں رھنے والے لوگوں کے درمیان اخلاق و معنویت کانمونہ بن جانا قبائلی نظام میں اخلاقی انحطاط و تنزلی کے باوجود اسی نظام کے اندر سے اخلاق و معنویت کے نمونوں کو پیش کرنا معمولی کارنامہ نھیں ہے ۔
یھی وجہ ہے کہ جاھلیت کی سر زمین کو قیصر و کسری و روم کے لئے قابل رشک بنانے والی ذات کو قرآن کریم نے پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا
''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین'' اور انسانیت کے لئے اس ذات کو نمونہ عمل بنایا ''ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ ''
اسلام کے ظھور کو چودہ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا اسی قدر اس کی تعلیمات کی محتاج ہے جتنا روز اول تھی ۔ جس دن ان ضروریات کا احساس عام ھو جائے گا اس دن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ھوگا'' ﴿٨﴾۔ اب یہ ھماری ذمہ داری ہے کہ ھم ان تعلیمات کو کس طرح عام کریں جن کی تشنگی آج ھرمعاشرہ محسوس کر رھا ہے ۔
کل اگر بدو عرب پیغمبر اسلامۖ کی شخصیت سے حاصل ھونے والے دروس کے سرچشمہ سے فیضیاب ھو کرانسانی اقدار پر مشتمل سماج کی تشکیل دے سکتے ہیں تو یقینا آج بھی ھم پوری دنیا میں تعلیمات نبی رحمت ۖ کی روشنی پھیلا کر انسانیت کے مستقبل کے خطوط کو روشن کر سکتے ہیں۔
پروردگارا! اس معنویت کے موجودہ بحران میں، بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مسعود موقع پر ھمیں بھتر سے بھتر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور سمجھ کر اس پر عمل کے ساتھ دوسروں تک اس سیرت طیبہ کے ان مختلف گوشوں کو منتقل کرنے کی توفیق عنایت فرما جنکی چھائوں میں انسانیت کو سکون ملتا ہے ، جس کے سایہ میں آ کر انسان حقیقت انسانیت سے روشناس ھوتا ہے۔ آمین یا رب العالمین ۔
بقلم:سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
١۔ مفھوم یہ ہے'' اس کو مارنا اور اس سے نبٹ پانا عقل و ھوش کے بس کا کام نھیں ہے کہ نفس کا شیر خرگوش کا تر نوالہ یا اسکا مذاق نھیں ہے ، مولانا رومی ،حکایت نخچیران و شیر، مثنوی معنوی، دفتر اول ۔
٢۔ شھید مطھری ، سیری در سیرہ نبوی مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٤
٣۔ سیری در سیرئہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ۔ ص، ٢٧ ۔
٤۔ سیری در سیرہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٥
٥۔احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٦۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧
٧۔ احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٨بحران معنویت کا واحد حل سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی طرف بازگشت

قافلہ انسانی آج جس تیزی سے یکے بعددیگرے ارتقائی مراحل طے کرتے ھوئے آگے بڑھ رھا ہے اسے دیکھتے ھوئے کھا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی نھیں ہے جو اس کے دائرہ اختیار سے باھر ھو، اس کے عزم و ارادہ کے آگے ھر چیز بے بس ہے اس وسیع کائنات کی کوئی شے اس کے قلمروِ اختیار سے باھر نھیں، پوری کائنات میں اسی کے اختیار و عمل کا سکہ چلتا ہے ۔

یہ سائنس کی ھنر نمائیاں ،یہ علم و حکمت کی جولانیاں ، یہ ترقی و کامیابی کی شھنائیاں، سب کے سب انسانیت کے شاندار مستقبل کی تعمیر کا عندیہ دے رھی ہیں ۔  

نظر اٹھا کر تو دیکھیں ھرطرف کامیابیوں کی شھنائیاں بج رھی ہیں ، خوشیوں کے میلے ہیں ،انسانی خواھشات کے وسیع سمندر میں تکمیلِ آرزو کے سفینے رواں دواں ہیں، مسرتوں کی دل آویزیوں کے ساتھ ھرسو رونقوں کے دیپ جل رھے ہیں، انسان کی رنگ برنگی آرزوئیں تتلیوں کی طرح دنیاوی نعمات کے پھولوں سے لپٹی عرق تسکین تلاش کر رھی ہیں ، ھر طرف انسان کی ھنر نمائیوں کی چراغانی ہے۔

آج نہ صرف پانی ھوا ،فضا اور خلا انسان کے قبضہ میں ہے بلکہ انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کمال کی چوٹیوں کو طے کرنے کے لئے کمر ھمت باندھ لے تو اقالیم سبعہ اس کے قدموں میں سجدہ ریز نظر آئیں گے ۔

بقول شھید مطھری ''انسان کی علمی اور فنی طاقت کے لئے کوئی قلعہ نا قابل تسخیر نھیں ہے سوائے ایک قلعہ کے اور وہ ہے انسانی روح اور اس کے نفس کا قلعہ ۔

پھاڑ ، سمندر ، خلا ، زمین ، آسمان ، یہ سب کے سب اس کی علمی اور فنی جولانیوں کے سامنے بے بس ہیں واحد وہ مرکز جو اس کی عمل داری سے باھر ہے وہ وھی چیز ہے جو خود انسان سے سب سے نزدیک ہے لیکن اسے فتح کرنا آسان نھیں بقول مولانا رومی :

کشتن اين کار عقل و هوش نيست

شیر باطن سخرئہ خرگوش نیست ۔ (١)۔

اب یہ اتفاق ھی ہے کہ انسان کے آرام و سکون ، امن و عدالت ، آزادی و مساوات اور انسان کی فلاح و کامیابی کا سب سے خطرناک دشمن خود اسی کے قلعہ میں چھپاہے اور اس کی گھات میں بیٹھا ھوا ہے ''اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک تمھارا سب سے بڑا دشمن تمھارا وہ نفس ہے جو تمھارے پھلو میں ہے ،،﴿۲﴾  

سب سے بڑے دشمن سے بے خبری ھی کا نتیجہ ہے کہ کائنات کو تسخیر کر لینے کے بعد بھی انسان اپنے سرکش نفس کو قابو کرنے میں ناکام ہے اور شاید یھی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی کرشما سازیوں اور ھنر آفرینیوں کے باوجود آج انسانی اقدار انسانیت کا ماتم کرتے نظر آ رھے ہیں اس کی مثال وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اقتصادی اور مالی و رفاھی اعتبار سے دنیا میں سر فھرست ہیں ۔ان کی جیسی ٹکنالوجی کسی کے پاس نھیں ، ان کے جیسے جنگی آلات کسی کے پاس نھیں ان کا جیسا مضبوط مواصلاتی نظام کسی کے پاس نھیں، ان کے جیسے ذرائع ابلاغ کسی کے پاس نھیں وہ رفاھی اور مالی اعتبار سے آج مثال بننے کے باوجود اپنے عوام کو سکون مھیہ کرانے میں ناکام ہیں اور ماھرین نفسیات جب بھی سروے کرتے ہیں تو یھی بات سامنے آتی ہے کہ بے چینی اور depression)(میں بھی سب سے آگے یھی ممالک ہیں۔ معتبر رپورٹوں کے مطابق سب سے زیادہ خود کشی کی شرح بھی انھیں ممالک میں پائی جاتی ہے ۔

خود کشی کی سب سے بڑی وجہ بھی یھی ہے کہ جب انھیں سکون نصیب نھیں ھوتا اور زندگی بیزار سی لگنے لگتی ہے تو اس بیزاری کاآخری حل خود کشی کے طور پر سامنے آتا ہے اور نہ صرف خود کشی بلکہ تدریجی اور خاموش موت کے ذمہ دار بھی یھی ممالک ہیں اور یھی وجہ ہے کہ ''افغانستان ''اور'' کولمبیا ''جیسے منشیات کی پیداوار کے ممالک کا سب سے بڑا بازار بھی امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جھاں دنیا کی سب سے زیادہ منشیات سپلائی ھوتی ہے ۔

اگر یہ باتیں افریقا کے قحط زدہ علاقوں، ھندوستان ،پاکستان بنگلا دیش، یا دیگر غریب و فقیر ممالک کے لئے کھی جاتیں تو بات کچھ سمجھ میں آ سکتی تھی کہ فقیری ، غربت یا بیکاری سے تنگ آ کر لوگ منشیات کا استعمال کر رھے ہیں یا خود کشی کے ذریعہ خود کو ھلاک کر رھے ہیں مگرطرہ تو یہ ہے کہ جس طرح کی منشیات یہ ترقی یافتہ ملک استعمال کرتے ہیں ان کو استعمال کا سوچ کرھی غریب آدمی کوھارٹ اٹیک ھو سکتا ہے کیونکہ ان کی قیمت بھی ایک عام آدمی اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ادا نھیں کر سکتا ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ غربت یا فقیری منشیات کے استعمال اور خود کشی کی علت نھیں ہے بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔

ان ممالک کے تجزیاتی مطالعہ کی روشنی میں یہ بات کھی جا سکتی ہے کہ مادیت کی چکا چوند میںیہ بھول گئے ہیں کہ جس طرح انسان کے جسم کو رشد و نمو کے لئے غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح بھی بغیر غذا کے رشد و نمو حاصل نھیں کر سکتی اورروح اس وقت تک پرسکون نھیں ھو سکتی جب تک اس کے معنوی تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے۔

انھوں نے جسمانی تقاضوں کی تسکین کے وسائل پر تو افراط کی حد تک توجہ کی لیکن روح کے تقاضوں کو بھول گئے اور شاید یھی وجہ ہے کہ یہ لوگ مادی اعتبار سے تو بھت آگے ہیں لیکن روحی اعتبار سے قحط زدہ علاقوں میں بسنے والے ننگے بھوکوں سے بھی زیادہ بھوکے ہیں یہ اپنی روحانیت کی بھوک مٹانے کے لئے ادھر ادھر ھاتھ پیر مارتے ہیں اور جب کھیں سکون نھیں ملتا تو موت سے ھم آغوش ھو جاتے ہیں ھماری اس بات کا ثبوت وہ جدید تحقیقات ہیں جن سے یہ بات ثابت ھوتی ہے کہ شراب اور دوسری منشیات کا استعمال مذھبی افراد میں دوسروں سے کم ہے ۔

آج تیزی کی ساتھ ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن قافلہ انسانی گرچہ ظاھری ترقی کے زیورروں سے خود کو آراستہ کئے ایک دلفریب نظارہ پیش کر رھاہے اور اپنے حسن و جمال ،اپنی رعنائیوں اور دلربا ادوائوں سے ھر ایک کو مسحور کئے ھوئے انسانی ذھن کی کرشماتی صلاحیتوں کے بل پر داد تحسین حاصل کر کے خود میں مست مگن اپنی ظاھری کامیابیوں پر ناز کرتا نظر آرھا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے ایسے ز خم ہیں جو اس انسانی قافلہ کی زخمی روح میں پھیلتے چلے جا رھے ہیں اور اسے ان کی خبر بھی نھیں، مادیت کے جھلماتے حسین اور دبیز پردوں نے اس کی آنکھوں کے پتلیوں میں ایسا جال تان دیا ہے کہ یہ چاہ کر بھی حقیقتوں کا سامنا نھیں کر سکتا ۔

یہ چاھتے ھوئے بھی مچلتی ھوئی روح کے زخموں سے رستا ھوا لھو نھیں دیکھ سکتا، یہ چاھتے ھوئے بھی نالہ و شیون کرتی ھوئے انسانی اقدار کی چیخ پکار کو نھیں سن سکتا ۔یہ بھوک و افلاس سے تڑپتے ھوئے ناداروں کو دیکھتا ہے تو اس کی روح بے چین ھو جاتی ہے لیکن ایک ھی لمحے میں منظر بدل جاتا ہے ،پردہ ذھن پر بننے والی بے یارو مدد گار ننگے بھوکے دو روٹی کے محتاج لوگوں کی تصویر ابھی اس کے قرطاس دل پر ٹھہر نھیں پاتی کہ موسیقی کے دھن پر تھرکتے ھوئے بدن اس کے ذھن و دل و دماغ پر مسلط ھو کر اسے بھی زمانے کے ساتھ تھرکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، جذبہ ھم دردی سسکیاں لے کر دم توڑ دیتا ہے بے یار و مددگار فقیر و نادار لوگ اپنی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل لئے پیٹ پر پتھر باند کر سو جاتے ہیں اور یوں روح کے تقاضوں کا گلا گھونٹ کر روح و جسم کے ما بین متضاد خواھشات کا طلاطم تھم جاتا ہے ۔

یہ ظلم و ستم کی چکی میں پستے ھوئے یتیم ،لاوارث غریب ،پسماندہ اور ناتواں لوگوں کی فریادوں کو سنتا ہے لیکن اس سے پھلے کہ اس کی انسانیت ،اس کا ضمیر ان کے لئے کچھ کرنے پر وادار کرے چھلکتے جاموں کی کنھکھناھٹ اور کیف و سرور میں مدھوش نغموں کی مترنم آزوازیں اسے اپنے ساتھ اتنی دور لے جاتی ہیں جھاں یہ خود اپنی روح کی چیخ پکار بھی نھیں سن پاتا جو انسانیت کی دھائی دے کر اسے من مانی کرنے سے روکتی ہے لیکن یہ ھر حد کو پار کرتے ھوئے حیوانیت و درندگی کاپجاری بن جاتا ہے اور جب حیوانیت کے دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ کر اٹھاتا ہے تو اس کے نس نس میں درندگی جاگ اٹھتی ہے ۔

اب یہ ظاھر میں تو انسان ھوتا ہے لیکن حلال و حرام کی تمیز نھیں رھتی اس لئے اندر سے خنزیر بن جاتا ہے، اپنے پیٹ کے لئے ھر ایک سے لڑتا ہے ظاھر میں انسان ھوتا ہے لیکن اندر سے سگ آوارہ بن جاتا ہے، مظلوموں پر ظلم کرتا ہے اور کوئی روکے ٹوکے تو بھونکتا ھوا کاٹنے ڈوڑتا ہے، چھین جھپٹ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، ظاھری طور پر تو انسان نظرآتا ہے لیکن اندر سے بھیڑیا بن جاتا ہے یہ کھیں سانپ ،کھیں بچھو، کھیں گرگٹ بنتا ہے لیکن انسان کھیں نھیں رھتا یھی وجہ ہے کھیں باپ اور بیٹی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اڑاتا ہے تو کھیں بھن بھائی کے تقدس کو سر بازار نیلام کرتا ہے ۔

مختصر یہ کہ جو انسان چاند اور سورج پر کمندیں ڈال رھا تھا اگر اس کے پاس واضح اور روشن اخلاقی نمونے نہ ھوں تو وہ خود اپنے وجود کے حصار سے باھر نھیں نکل پاتا بلکہ جتنا زیادہ دنیاوی علم و ٹکنالوجی کو استعمال میں لاتا ہے اتنا ھی زیادہ بڑی تباھی کو بھی وجود میں لاتا ہے ۔  

دنیا چاھے جتنا بھی قافلہ انسانی کی ترقی کے گن گائے لیکن یہ بات کسی بھی صاحب بصیرت کی نظروں سے پوشیدہ نھیں کہ جتنا علم و صنعت کی کرشما سازیاں انسانیت کو بام عروج پر پھونچا رھی ہیں اتنا ھی انسانیت اخلاق و معنویت کے بحران میں مبتلا ھوتی جا رھی ہے ۔

دنیا میں تمام تر ترقیوں کے باوجود ، جرائم ، فساد، تباھی ، قتل ، خود کشی ، کی شرحوں میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمنائوں کے ھجوم اور آرزووں کے حصول کے سیلاب میں کوئی بھی ایسا ساحل امن نھیں جھاں انسانیت خود کومحفوظ سمجھ سکے ۔

انسان کی سرکش روح جب سرکشی پر آمادہ ھو جائے اور اس کی بلا خیز تمنائوں میں جب طغیانی آ جائے تو علم وصنعت کی یہ روز افزوں ترقی بھی تخریب میں تیزی کا باعث بن جاتی ہے اور آج یھی ھو رھا ہے۔

 شھید مطھری ﴿رح﴾ نے سالھا سال پھلے انسانیت کے درد کو سمجھتے ھوئے انھیں باتوں کے پیش نظر کھا ھوگا : '' اسی لئے آج کا انسان اس قدر علمی کامیابیوں کے باوجود درد انگیز نالے بلند کر رھا ہے ،یہ کیوں نالہ کناں ہے ؟ اس میں کس پھلو سے کمی اور نقص پایا جاتا ہے ؟ کیا اخلاق و عادات اور انسانیت کے بحران کے علاوہ بھی اس میں کوئی کمی پائی جا رھی ہے ؟ آج انسان علمی اور فکری اعتبار سے اس مقام پر پھنچ چکا ہے کہ اب وہ آسمانوں پر سفر کا ارادہ رکھتا ہے، سقراط اور افلاطون جیسے لوگ اس کی شاگردی کا اعزاز قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن روحانیت و اخلاق اور عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ ایک شمشیر بدست وحشی کی مانند ھونے سے زیادہ نھیں ہے اگرچہ ا نسان نے حتی الامکان اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کیا ہے لیکن اپنے آپ کو اور اپنے انداز فکر کو اپنے جذبات و رجحانات کو تبدیل نھیں کر سکا آج کے انسان کی مشکلات کی جڑ اسی جگہ تلاش کرنا چاھیے  ﴿٣﴾

آج کے انسان نے علم و فن میں اپنی تمام ترکرشمہ ساز ترقیوں کے باوجود آدمیت اور انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھایا ہے بلکہ وہ اپنے تاریک ترین دور کی جانب پلٹ گیا ہے'' .. ٤ سوال یہ ہے کہ اس انسان کو اس کے تاریک دور سے واپس آج کی دنیا میں کیسے لایا جائے ؟

 علامہ اقبال اس کا حل یوں بیان کرتے ہیں ''انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے ، دنیا کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور دنیا پر اثر انداز ھونے والا ایسابنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سماج کے کمال تک پھونچنے کی نھج اور اس کے مبنا کو بیان کر سکے''﴿۵﴾ ۔

یہ تینوں چیزیں صرف دین کے ذریعہ حاصل ھو سکتی ہیں ''مختلف مکاتب ، ادیان اور مذاھب کے درمیان صرف اسلام ہے جو ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔﴿٦﴾    

آج انسانیت کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ معنویت اور اخلاق ہے ۔ در حقیقت انسان اپنے گم شدہ وجود کی تلاش میں سرگرداں ہے جو بغیر اخلاق و معنویت کے متصور نھیں ہے ،انسان کی پیاسی روح کو شدت کے ساتھ الھامی تعلیمات کے ان برستے بادلوں کی ضرورت ہے جو ذھن و دل و دماغ کی مرجھائی کلیوں کے ھونٹوں پر بھی زندگی کی مسکراھٹ بکھیر دیں اور یہ کام عقل محض کے خشک جھلستے بیابانوں میں صحرا نوردی سے ممکن نھیں ۔

 چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں: '' شک نھیں کہ جدید یورپ نے نظریاتی اور مثالی نظام مدون کئے ۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جو حقیقت صرف اور صرف عقل محض کے رستہ حاصل کی جائے اس میں زندہ اعتقاد کی حرارت نھیں ھو سکتی جو صرف الھام سے ھوتی ہے ،یھی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی اثر نھیں ڈالا جبکہ دین ھمیشہ لوگوں کی ترقی اور انسانی معاشرے میں تبدیلی کا باعث رھا ہے اسی لئے یورپ کی کارگزاریوں کا نتیجہ ایک حیران '' میں '' کی صور ت میں سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ناھم آھنگ جمھوریتوں کے درمیان اپنی تلاش میں سرگرداں ہے،میری بات پر یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسانیت کے اخلاق کی ترقی میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے ' (٧) وہ ساحل نجات جھاں یہ'' میں '' دریائے حیرت میں غوطہ ور ھونے سے بچ کر ابدی سکون سے ھمکنار ھو سکتا ہے وہ''ایمان ''ہے، اگر زندگی کو کوئی چیز حسین بنا سکتی ہے تو وہ ایمان ہے ۔جس کے پاس ایمان نھیں وہ با مقصد و با معنی زندگی کے مفھوم سے کبھی آشنا نھیں ھو سکتا اس لئے شھید مطھری کے بقول '' ایمان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے خواہ وہ عقل ھو یا علم ،ھنر ھو یا صنعت، قانون ھو یا کچھ اور!یہ سب انسان کی جبلی خواھشات کی تسکین اور ان کی تکمیل کے لئے اس کے ھاتھ میں آلہ کار ہیں، صرف قوت ایمانی وہ چیز ہے جو روح کو نئی زندگی دیتی ہے ۔

اخلاق و معنویت کا بحران اس وقت تک نھیں حل ھو سکتا جب تک بنی نوع بشر اپنی پیاسی روحوں کو ایمان کے چشمہ طمانیت سے سیراب نہ کرے اور ان تعلیمات سے آشنا نہ ھو جائے جھاں روح و جسم دونوں کے تقاضوں کے مد نظر ان جامع اصولوں کی نشان دھی کی گئی ہے جو انسان کو انسان بناتے ہیں ۔

آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اخلاق اور معنویت کے بحران سے کیسے مقابلہ کیا جائے ایسے میں ضرورت ہے اس اخلاق کے پیکر کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جس نے جاھلی رسموں اور خود ساختہ سماجی زنجیروں میں جکڑے ھوئے اس عرب کے جاھلی سماج کی علم و اخلاق و تھذیب کے بل پر تعمیر کر کے جینے کے لائق بنا دیا جو فتنہ و فساد کی آگ میں جل رھا تھا، خرافات اور اوھام پرستی کی خار دار جھاڑیوں میں اپنا وجود کھو چکا تھا جھلستے ھوئے بیابانوں ، لق و دق صحرائوں اور ریگزاروں میں رھنے والے لوگوں کے درمیان اخلاق و معنویت کانمونہ بن جانا قبائلی نظام میں اخلاقی انحطاط و تنزلی کے باوجود اسی نظام کے اندر سے اخلاق و معنویت کے نمونوں کو پیش کرنا معمولی کارنامہ نھیں ہے ۔

یھی وجہ ہے کہ جاھلیت کی سر زمین کو قیصر و کسری و روم کے لئے قابل رشک بنانے والی ذات کو قرآن کریم نے پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا

''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین'' اور انسانیت کے لئے اس ذات کو نمونہ عمل بنایا ''ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ ''

اسلام کے ظھور کو چودہ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا اسی قدر اس کی تعلیمات کی محتاج ہے جتنا روز اول تھی ۔ جس دن ان ضروریات کا احساس عام ھو جائے گا اس دن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ھوگا'' ﴿٨﴾۔ اب یہ ھماری ذمہ داری ہے کہ ھم ان تعلیمات کو کس طرح عام کریں جن کی تشنگی آج ھرمعاشرہ محسوس کر رھا ہے ۔

کل اگر بدو عرب پیغمبر اسلامۖ کی شخصیت سے حاصل ھونے والے دروس کے سرچشمہ سے فیضیاب ھو کرانسانی اقدار پر مشتمل سماج کی تشکیل دے سکتے ہیں تو یقینا آج بھی ھم پوری دنیا میں تعلیمات نبی رحمت ۖ کی روشنی پھیلا کر انسانیت کے مستقبل کے خطوط کو روشن کر سکتے ہیں۔

پروردگارا! اس معنویت کے موجودہ بحران میں، بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مسعود موقع پر ھمیں بھتر سے بھتر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور سمجھ کر اس پر عمل کے ساتھ دوسروں تک اس سیرت طیبہ کے ان مختلف گوشوں کو منتقل کرنے کی توفیق عنایت فرما جنکی چھائوں میں انسانیت کو سکون ملتا ہے ، جس کے سایہ میں آ کر انسان حقیقت انسانیت سے روشناس ھوتا ہے۔ آمین یا رب العالمین ۔

بقلم:سید نجیب الحسن زیدی

حواشی :

١۔ مفھوم یہ ہے'' اس کو مارنا اور اس سے نبٹ پانا عقل و ھوش کے بس کا کام نھیں ہے کہ نفس کا شیر خرگوش کا تر نوالہ یا اسکا مذاق نھیں ہے ، مولانا رومی ،حکایت نخچیران و شیر، مثنوی معنوی، دفتر اول ۔

٢۔ شھید مطھری ، سیری در سیرہ نبوی مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٤

٣۔ سیری در سیرئہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ۔ ص، ٢٧ ۔

٤۔ سیری در سیرہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٥

٥۔احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤

٦۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧

٧۔ احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤

٨۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧

۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧

بحران معنویت کا واحد حل سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی طرف بازگشت
قافلہ انسانی آج جس تیزی سے یکے بعددیگرے ارتقائی مراحل طے کرتے ھوئے آگے بڑھ رھا ہے اسے دیکھتے ھوئے کھا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی نھیں ہے جو اس کے دائرہ اختیار سے باھر ھو، اس کے عزم و ارادہ کے آگے ھر چیز بے بس ہے اس وسیع کائنات کی کوئی شے اس کے قلمروِ اختیار سے باھر نھیں، پوری کائنات میں اسی کے اختیار و عمل کا سکہ چلتا ہے ۔
یہ سائنس کی ھنر نمائیاں ،یہ علم و حکمت کی جولانیاں ، یہ ترقی و کامیابی کی شھنائیاں، سب کے سب انسانیت کے شاندار مستقبل کی تعمیر کا عندیہ دے رھی ہیں ۔  
نظر اٹھا کر تو دیکھیں ھرطرف کامیابیوں کی شھنائیاں بج رھی ہیں ، خوشیوں کے میلے ہیں ،انسانی خواھشات کے وسیع سمندر میں تکمیلِ آرزو کے سفینے رواں دواں ہیں، مسرتوں کی دل آویزیوں کے ساتھ ھرسو رونقوں کے دیپ جل رھے ہیں، انسان کی رنگ برنگی آرزوئیں تتلیوں کی طرح دنیاوی نعمات کے پھولوں سے لپٹی عرق تسکین تلاش کر رھی ہیں ، ھر طرف انسان کی ھنر نمائیوں کی چراغانی ہے۔
آج نہ صرف پانی ھوا ،فضا اور خلا انسان کے قبضہ میں ہے بلکہ انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کمال کی چوٹیوں کو طے کرنے کے لئے کمر ھمت باندھ لے تو اقالیم سبعہ اس کے قدموں میں سجدہ ریز نظر آئیں گے ۔
بقول شھید مطھری ''انسان کی علمی اور فنی طاقت کے لئے کوئی قلعہ نا قابل تسخیر نھیں ہے سوائے ایک قلعہ کے اور وہ ہے انسانی روح اور اس کے نفس کا قلعہ ۔
پھاڑ ، سمندر ، خلا ، زمین ، آسمان ، یہ سب کے سب اس کی علمی اور فنی جولانیوں کے سامنے بے بس ہیں واحد وہ مرکز جو اس کی عمل داری سے باھر ہے وہ وھی چیز ہے جو خود انسان سے سب سے نزدیک ہے لیکن اسے فتح کرنا آسان نھیں بقول مولانا رومی :
کشتن اين کار عقل و هوش نيست
شیر باطن سخرئہ خرگوش نیست ۔ (١)۔
اب یہ اتفاق ھی ہے کہ انسان کے آرام و سکون ، امن و عدالت ، آزادی و مساوات اور انسان کی فلاح و کامیابی کا سب سے خطرناک دشمن خود اسی کے قلعہ میں چھپاہے اور اس کی گھات میں بیٹھا ھوا ہے ''اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک تمھارا سب سے بڑا دشمن تمھارا وہ نفس ہے جو تمھارے پھلو میں ہے ،،﴿۲﴾  
سب سے بڑے دشمن سے بے خبری ھی کا نتیجہ ہے کہ کائنات کو تسخیر کر لینے کے بعد بھی انسان اپنے سرکش نفس کو قابو کرنے میں ناکام ہے اور شاید یھی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی کرشما سازیوں اور ھنر آفرینیوں کے باوجود آج انسانی اقدار انسانیت کا ماتم کرتے نظر آ رھے ہیں اس کی مثال وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اقتصادی اور مالی و رفاھی اعتبار سے دنیا میں سر فھرست ہیں ۔ان کی جیسی ٹکنالوجی کسی کے پاس نھیں ، ان کے جیسے جنگی آلات کسی کے پاس نھیں ان کا جیسا مضبوط مواصلاتی نظام کسی کے پاس نھیں، ان کے جیسے ذرائع ابلاغ کسی کے پاس نھیں وہ رفاھی اور مالی اعتبار سے آج مثال بننے کے باوجود اپنے عوام کو سکون مھیہ کرانے میں ناکام ہیں اور ماھرین نفسیات جب بھی سروے کرتے ہیں تو یھی بات سامنے آتی ہے کہ بے چینی اور depression)(میں بھی سب سے آگے یھی ممالک ہیں۔ معتبر رپورٹوں کے مطابق سب سے زیادہ خود کشی کی شرح بھی انھیں ممالک میں پائی جاتی ہے ۔
خود کشی کی سب سے بڑی وجہ بھی یھی ہے کہ جب انھیں سکون نصیب نھیں ھوتا اور زندگی بیزار سی لگنے لگتی ہے تو اس بیزاری کاآخری حل خود کشی کے طور پر سامنے آتا ہے اور نہ صرف خود کشی بلکہ تدریجی اور خاموش موت کے ذمہ دار بھی یھی ممالک ہیں اور یھی وجہ ہے کہ ''افغانستان ''اور'' کولمبیا ''جیسے منشیات کی پیداوار کے ممالک کا سب سے بڑا بازار بھی امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جھاں دنیا کی سب سے زیادہ منشیات سپلائی ھوتی ہے ۔
اگر یہ باتیں افریقا کے قحط زدہ علاقوں، ھندوستان ،پاکستان بنگلا دیش، یا دیگر غریب و فقیر ممالک کے لئے کھی جاتیں تو بات کچھ سمجھ میں آ سکتی تھی کہ فقیری ، غربت یا بیکاری سے تنگ آ کر لوگ منشیات کا استعمال کر رھے ہیں یا خود کشی کے ذریعہ خود کو ھلاک کر رھے ہیں مگرطرہ تو یہ ہے کہ جس طرح کی منشیات یہ ترقی یافتہ ملک استعمال کرتے ہیں ان کو استعمال کا سوچ کرھی غریب آدمی کوھارٹ اٹیک ھو سکتا ہے کیونکہ ان کی قیمت بھی ایک عام آدمی اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ادا نھیں کر سکتا ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ غربت یا فقیری منشیات کے استعمال اور خود کشی کی علت نھیں ہے بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہے۔
ان ممالک کے تجزیاتی مطالعہ کی روشنی میں یہ بات کھی جا سکتی ہے کہ مادیت کی چکا چوند میںیہ بھول گئے ہیں کہ جس طرح انسان کے جسم کو رشد و نمو کے لئے غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح بھی بغیر غذا کے رشد و نمو حاصل نھیں کر سکتی اورروح اس وقت تک پرسکون نھیں ھو سکتی جب تک اس کے معنوی تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے۔
انھوں نے جسمانی تقاضوں کی تسکین کے وسائل پر تو افراط کی حد تک توجہ کی لیکن روح کے تقاضوں کو بھول گئے اور شاید یھی وجہ ہے کہ یہ لوگ مادی اعتبار سے تو بھت آگے ہیں لیکن روحی اعتبار سے قحط زدہ علاقوں میں بسنے والے ننگے بھوکوں سے بھی زیادہ بھوکے ہیں یہ اپنی روحانیت کی بھوک مٹانے کے لئے ادھر ادھر ھاتھ پیر مارتے ہیں اور جب کھیں سکون نھیں ملتا تو موت سے ھم آغوش ھو جاتے ہیں ھماری اس بات کا ثبوت وہ جدید تحقیقات ہیں جن سے یہ بات ثابت ھوتی ہے کہ شراب اور دوسری منشیات کا استعمال مذھبی افراد میں دوسروں سے کم ہے ۔
آج تیزی کی ساتھ ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن قافلہ انسانی گرچہ ظاھری ترقی کے زیورروں سے خود کو آراستہ کئے ایک دلفریب نظارہ پیش کر رھاہے اور اپنے حسن و جمال ،اپنی رعنائیوں اور دلربا ادوائوں سے ھر ایک کو مسحور کئے ھوئے انسانی ذھن کی کرشماتی صلاحیتوں کے بل پر داد تحسین حاصل کر کے خود میں مست مگن اپنی ظاھری کامیابیوں پر ناز کرتا نظر آرھا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے ایسے ز خم ہیں جو اس انسانی قافلہ کی زخمی روح میں پھیلتے چلے جا رھے ہیں اور اسے ان کی خبر بھی نھیں، مادیت کے جھلماتے حسین اور دبیز پردوں نے اس کی آنکھوں کے پتلیوں میں ایسا جال تان دیا ہے کہ یہ چاہ کر بھی حقیقتوں کا سامنا نھیں کر سکتا ۔
یہ چاھتے ھوئے بھی مچلتی ھوئی روح کے زخموں سے رستا ھوا لھو نھیں دیکھ سکتا، یہ چاھتے ھوئے بھی نالہ و شیون کرتی ھوئے انسانی اقدار کی چیخ پکار کو نھیں سن سکتا ۔یہ بھوک و افلاس سے تڑپتے ھوئے ناداروں کو دیکھتا ہے تو اس کی روح بے چین ھو جاتی ہے لیکن ایک ھی لمحے میں منظر بدل جاتا ہے ،پردہ ذھن پر بننے والی بے یارو مدد گار ننگے بھوکے دو روٹی کے محتاج لوگوں کی تصویر ابھی اس کے قرطاس دل پر ٹھہر نھیں پاتی کہ موسیقی کے دھن پر تھرکتے ھوئے بدن اس کے ذھن و دل و دماغ پر مسلط ھو کر اسے بھی زمانے کے ساتھ تھرکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، جذبہ ھم دردی سسکیاں لے کر دم توڑ دیتا ہے بے یار و مددگار فقیر و نادار لوگ اپنی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل لئے پیٹ پر پتھر باند کر سو جاتے ہیں اور یوں روح کے تقاضوں کا گلا گھونٹ کر روح و جسم کے ما بین متضاد خواھشات کا طلاطم تھم جاتا ہے ۔
یہ ظلم و ستم کی چکی میں پستے ھوئے یتیم ،لاوارث غریب ،پسماندہ اور ناتواں لوگوں کی فریادوں کو سنتا ہے لیکن اس سے پھلے کہ اس کی انسانیت ،اس کا ضمیر ان کے لئے کچھ کرنے پر وادار کرے چھلکتے جاموں کی کنھکھناھٹ اور کیف و سرور میں مدھوش نغموں کی مترنم آزوازیں اسے اپنے ساتھ اتنی دور لے جاتی ہیں جھاں یہ خود اپنی روح کی چیخ پکار بھی نھیں سن پاتا جو انسانیت کی دھائی دے کر اسے من مانی کرنے سے روکتی ہے لیکن یہ ھر حد کو پار کرتے ھوئے حیوانیت و درندگی کاپجاری بن جاتا ہے اور جب حیوانیت کے دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ کر اٹھاتا ہے تو اس کے نس نس میں درندگی جاگ اٹھتی ہے ۔
اب یہ ظاھر میں تو انسان ھوتا ہے لیکن حلال و حرام کی تمیز نھیں رھتی اس لئے اندر سے خنزیر بن جاتا ہے، اپنے پیٹ کے لئے ھر ایک سے لڑتا ہے ظاھر میں انسان ھوتا ہے لیکن اندر سے سگ آوارہ بن جاتا ہے، مظلوموں پر ظلم کرتا ہے اور کوئی روکے ٹوکے تو بھونکتا ھوا کاٹنے ڈوڑتا ہے، چھین جھپٹ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، ظاھری طور پر تو انسان نظرآتا ہے لیکن اندر سے بھیڑیا بن جاتا ہے یہ کھیں سانپ ،کھیں بچھو، کھیں گرگٹ بنتا ہے لیکن انسان کھیں نھیں رھتا یھی وجہ ہے کھیں باپ اور بیٹی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اڑاتا ہے تو کھیں بھن بھائی کے تقدس کو سر بازار نیلام کرتا ہے ۔
مختصر یہ کہ جو انسان چاند اور سورج پر کمندیں ڈال رھا تھا اگر اس کے پاس واضح اور روشن اخلاقی نمونے نہ ھوں تو وہ خود اپنے وجود کے حصار سے باھر نھیں نکل پاتا بلکہ جتنا زیادہ دنیاوی علم و ٹکنالوجی کو استعمال میں لاتا ہے اتنا ھی زیادہ بڑی تباھی کو بھی وجود میں لاتا ہے ۔  
دنیا چاھے جتنا بھی قافلہ انسانی کی ترقی کے گن گائے لیکن یہ بات کسی بھی صاحب بصیرت کی نظروں سے پوشیدہ نھیں کہ جتنا علم و صنعت کی کرشما سازیاں انسانیت کو بام عروج پر پھونچا رھی ہیں اتنا ھی انسانیت اخلاق و معنویت کے بحران میں مبتلا ھوتی جا رھی ہے ۔
دنیا میں تمام تر ترقیوں کے باوجود ، جرائم ، فساد، تباھی ، قتل ، خود کشی ، کی شرحوں میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمنائوں کے ھجوم اور آرزووں کے حصول کے سیلاب میں کوئی بھی ایسا ساحل امن نھیں جھاں انسانیت خود کومحفوظ سمجھ سکے ۔
انسان کی سرکش روح جب سرکشی پر آمادہ ھو جائے اور اس کی بلا خیز تمنائوں میں جب طغیانی آ جائے تو علم وصنعت کی یہ روز افزوں ترقی بھی تخریب میں تیزی کا باعث بن جاتی ہے اور آج یھی ھو رھا ہے۔
 شھید مطھری ﴿رح﴾ نے سالھا سال پھلے انسانیت کے درد کو سمجھتے ھوئے انھیں باتوں کے پیش نظر کھا ھوگا : '' اسی لئے آج کا انسان اس قدر علمی کامیابیوں کے باوجود درد انگیز نالے بلند کر رھا ہے ،یہ کیوں نالہ کناں ہے ؟ اس میں کس پھلو سے کمی اور نقص پایا جاتا ہے ؟ کیا اخلاق و عادات اور انسانیت کے بحران کے علاوہ بھی اس میں کوئی کمی پائی جا رھی ہے ؟ آج انسان علمی اور فکری اعتبار سے اس مقام پر پھنچ چکا ہے کہ اب وہ آسمانوں پر سفر کا ارادہ رکھتا ہے، سقراط اور افلاطون جیسے لوگ اس کی شاگردی کا اعزاز قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن روحانیت و اخلاق اور عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ ایک شمشیر بدست وحشی کی مانند ھونے سے زیادہ نھیں ہے اگرچہ ا نسان نے حتی الامکان اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کیا ہے لیکن اپنے آپ کو اور اپنے انداز فکر کو اپنے جذبات و رجحانات کو تبدیل نھیں کر سکا آج کے انسان کی مشکلات کی جڑ اسی جگہ تلاش کرنا چاھیے  ﴿٣﴾
آج کے انسان نے علم و فن میں اپنی تمام ترکرشمہ ساز ترقیوں کے باوجود آدمیت اور انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نھیں بڑھایا ہے بلکہ وہ اپنے تاریک ترین دور کی جانب پلٹ گیا ہے'' .. ٤ سوال یہ ہے کہ اس انسان کو اس کے تاریک دور سے واپس آج کی دنیا میں کیسے لایا جائے ؟
 علامہ اقبال اس کا حل یوں بیان کرتے ہیں ''انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے ، دنیا کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور دنیا پر اثر انداز ھونے والا ایسابنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سماج کے کمال تک پھونچنے کی نھج اور اس کے مبنا کو بیان کر سکے''﴿۵﴾ ۔
یہ تینوں چیزیں صرف دین کے ذریعہ حاصل ھو سکتی ہیں ''مختلف مکاتب ، ادیان اور مذاھب کے درمیان صرف اسلام ہے جو ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔﴿٦﴾    
آج انسانیت کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ معنویت اور اخلاق ہے ۔ در حقیقت انسان اپنے گم شدہ وجود کی تلاش میں سرگرداں ہے جو بغیر اخلاق و معنویت کے متصور نھیں ہے ،انسان کی پیاسی روح کو شدت کے ساتھ الھامی تعلیمات کے ان برستے بادلوں کی ضرورت ہے جو ذھن و دل و دماغ کی مرجھائی کلیوں کے ھونٹوں پر بھی زندگی کی مسکراھٹ بکھیر دیں اور یہ کام عقل محض کے خشک جھلستے بیابانوں میں صحرا نوردی سے ممکن نھیں ۔
 چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں: '' شک نھیں کہ جدید یورپ نے نظریاتی اور مثالی نظام مدون کئے ۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جو حقیقت صرف اور صرف عقل محض کے رستہ حاصل کی جائے اس میں زندہ اعتقاد کی حرارت نھیں ھو سکتی جو صرف الھام سے ھوتی ہے ،یھی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی اثر نھیں ڈالا جبکہ دین ھمیشہ لوگوں کی ترقی اور انسانی معاشرے میں تبدیلی کا باعث رھا ہے اسی لئے یورپ کی کارگزاریوں کا نتیجہ ایک حیران '' میں '' کی صور ت میں سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ناھم آھنگ جمھوریتوں کے درمیان اپنی تلاش میں سرگرداں ہے،میری بات پر یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسانیت کے اخلاق کی ترقی میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے ' (٧) وہ ساحل نجات جھاں یہ'' میں '' دریائے حیرت میں غوطہ ور ھونے سے بچ کر ابدی سکون سے ھمکنار ھو سکتا ہے وہ''ایمان ''ہے، اگر زندگی کو کوئی چیز حسین بنا سکتی ہے تو وہ ایمان ہے ۔جس کے پاس ایمان نھیں وہ با مقصد و با معنی زندگی کے مفھوم سے کبھی آشنا نھیں ھو سکتا اس لئے شھید مطھری کے بقول '' ایمان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے خواہ وہ عقل ھو یا علم ،ھنر ھو یا صنعت، قانون ھو یا کچھ اور!یہ سب انسان کی جبلی خواھشات کی تسکین اور ان کی تکمیل کے لئے اس کے ھاتھ میں آلہ کار ہیں، صرف قوت ایمانی وہ چیز ہے جو روح کو نئی زندگی دیتی ہے ۔
اخلاق و معنویت کا بحران اس وقت تک نھیں حل ھو سکتا جب تک بنی نوع بشر اپنی پیاسی روحوں کو ایمان کے چشمہ طمانیت سے سیراب نہ کرے اور ان تعلیمات سے آشنا نہ ھو جائے جھاں روح و جسم دونوں کے تقاضوں کے مد نظر ان جامع اصولوں کی نشان دھی کی گئی ہے جو انسان کو انسان بناتے ہیں ۔
آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اخلاق اور معنویت کے بحران سے کیسے مقابلہ کیا جائے ایسے میں ضرورت ہے اس اخلاق کے پیکر کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جس نے جاھلی رسموں اور خود ساختہ سماجی زنجیروں میں جکڑے ھوئے اس عرب کے جاھلی سماج کی علم و اخلاق و تھذیب کے بل پر تعمیر کر کے جینے کے لائق بنا دیا جو فتنہ و فساد کی آگ میں جل رھا تھا، خرافات اور اوھام پرستی کی خار دار جھاڑیوں میں اپنا وجود کھو چکا تھا جھلستے ھوئے بیابانوں ، لق و دق صحرائوں اور ریگزاروں میں رھنے والے لوگوں کے درمیان اخلاق و معنویت کانمونہ بن جانا قبائلی نظام میں اخلاقی انحطاط و تنزلی کے باوجود اسی نظام کے اندر سے اخلاق و معنویت کے نمونوں کو پیش کرنا معمولی کارنامہ نھیں ہے ۔
یھی وجہ ہے کہ جاھلیت کی سر زمین کو قیصر و کسری و روم کے لئے قابل رشک بنانے والی ذات کو قرآن کریم نے پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا
''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین'' اور انسانیت کے لئے اس ذات کو نمونہ عمل بنایا ''ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ ''
اسلام کے ظھور کو چودہ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا اسی قدر اس کی تعلیمات کی محتاج ہے جتنا روز اول تھی ۔ جس دن ان ضروریات کا احساس عام ھو جائے گا اس دن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ھوگا'' ﴿٨﴾۔ اب یہ ھماری ذمہ داری ہے کہ ھم ان تعلیمات کو کس طرح عام کریں جن کی تشنگی آج ھرمعاشرہ محسوس کر رھا ہے ۔
کل اگر بدو عرب پیغمبر اسلامۖ کی شخصیت سے حاصل ھونے والے دروس کے سرچشمہ سے فیضیاب ھو کرانسانی اقدار پر مشتمل سماج کی تشکیل دے سکتے ہیں تو یقینا آج بھی ھم پوری دنیا میں تعلیمات نبی رحمت ۖ کی روشنی پھیلا کر انسانیت کے مستقبل کے خطوط کو روشن کر سکتے ہیں۔
پروردگارا! اس معنویت کے موجودہ بحران میں، بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مسعود موقع پر ھمیں بھتر سے بھتر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور سمجھ کر اس پر عمل کے ساتھ دوسروں تک اس سیرت طیبہ کے ان مختلف گوشوں کو منتقل کرنے کی توفیق عنایت فرما جنکی چھائوں میں انسانیت کو سکون ملتا ہے ، جس کے سایہ میں آ کر انسان حقیقت انسانیت سے روشناس ھوتا ہے۔ آمین یا رب العالمین ۔
بقلم:سید نجیب الحسن زیدی
حواشی :
١۔ مفھوم یہ ہے'' اس کو مارنا اور اس سے نبٹ پانا عقل و ھوش کے بس کا کام نھیں ہے کہ نفس کا شیر خرگوش کا تر نوالہ یا اسکا مذاق نھیں ہے ، مولانا رومی ،حکایت نخچیران و شیر، مثنوی معنوی، دفتر اول ۔
٢۔ شھید مطھری ، سیری در سیرہ نبوی مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٤
٣۔ سیری در سیرئہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ۔ ص، ٢٧ ۔
٤۔ سیری در سیرہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٥
٥۔احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٦۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧
٧۔ احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٨۔ سیری در سیرہ نبوی ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧

 

Add comment


Security code
Refresh