www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

682502
جو بھی مسلمان آئمہ اھل بیت علیھم السلام کو اللہ کی طرف سے بنایا ھوا امام مانے، اسے کسی بھی طرح مقصر نھیں کھا جاسکتا۔ لیکن آج کل ھماری اسٹیج سے غالی اور مقصر کیلئے عجیب و غریب اور لاتعداد معیار سامنے آتے رھتے ہیں۔ جن کا اگر خلاصہ کیا جائے تو معیار یہ بنتا ہے، جو شخص میرے عقیدے سے ان حضرات کو برتر مانتا ہے، وہ غالی ہے اور جو ان حضرات کو میرے عقیدے سے کمتر مانتا ہے، وہ مقصر ہے۔ اس طرح ھم سب کچھ لوگوں کی نظر میں غالی ھوں گے تو دوسرے حضرات کی نظر میں مقصر اور کوئی بھی فرد نہ غلو سے باھر نکل پائے گا نہ تقصیر سے۔
غالی توبہ بھی کر لے تو اھل بیت علیھم السلام اسے قبول نھیں کرتے، لیکن مقصر کی توبہ قبول ہے۔
قَالَ الصَّادِقُ (عَلَيْهِ السَّلَامُ): احْذَرُوا عَلَى شَبَابِكُمْ الْغُلَاةَ لَا يُفْسِدُونَهُمْ، فَإِنَّ الْغُلَاةَ شَرُّ خَلْقِ اللَّهِ، يُصَغِّرُونَ عَظَمَةَ اللَّهِ، وَ يَدَّعُونَ الرُّبُوبِيَّةَ لِعِبَادِ اللَّهِ،وَاللَّهِ إِنَّ الْغُلَاةَ شَرٌّ مِنَ الْيَهُودِ وَ النَّصارى‏ وَ الْمَجُوسَ وَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا۔
ثُمَّ قَالَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ): إِلَيْنَا يَرْجِعُ الْغَالِي‏ فَلَا نَقْبَلُهُ، وَ بِنَا يَلْحَقُ الْمُقَصِّرُ فَنَقْبَلُهُ۔
فقِيلَ لَهُ:كَيْفَ ذَلِكَ، يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ
قَالَ: لِأَنَّ الْغَالِيَ قَدِ اعْتَادَ تَرْكَ الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الصِّيَامِ وَ الْحَجِّ، فَلَا يَقْدِرُ عَلَى تَرْكِ عَادَتِهِ، وَ عَلَى الرُّجُوعِ إِلَى طَاعَةِ اللَّهِ (عَزَّ وَ جَلَّ) أَبَداً، وَ إِنَّ الْمُقَصِّرُ إِذَا عَرَفَ عَمِلَ وَ أَطَاعَ۔(الأمالي للطوسي، النص، ص: 651﴾
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
اپنے جوانوں کو غالیوں سے بچاؤ کہ وہ ان کو فاسد نہ بنا دیں۔ بیشک غالی بدترین مخلوق ہیں، اللہ کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور اللہ کے بندوں کے لئے ربوبیت کے عقیدے کی دعوت دیتے ہیں۔
خدا کی قسم! غالی تو یھود، نصاریٰ، مجوس اور مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔
پھر آپ نے فرمایا: غالی ھماری طرف لوٹ آئے تو ھم اسے قبول نھیں کرتے، لیکن اگر مقصر ھم سے آکر ملے تو ھم اسے قبول کر لیں گے۔
آپ سے پوچھا گیا: اے فرزند رسول وہ کیسے۔؟
آپ نے فرمایا: غالی نے نماز، زکاۃ، روزہ اور حج کے ترک کرنے کی عادت اپنا لی ہے اور وہ اپنی عادت ترک کرنے اور اللہ کی اطاعت کی طرف لوٹنے پر کبھی بھی قادر نھیں ھوتا، جبکہ مقصر کو جب معرفت ھو جائے گی تو اس پر عمل کرے گا اور اطاعت کرے گا۔
اھل بیت علیھم السلام کے متعلق غلو اور اھل بیت علیھم السلام کے دشمنوں کا نام لے کر عیب بیان کرنے والی روایات جعلی ہیں۔
قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي مَحْمُودٍ فَقُلْتُ لِلرِّضَا يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ إِنَّ عِنْدَنَا أَخْبَاراً فِي فَضَائِلِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿ع﴾ وَ فَضْلِكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ هِيَ مِنْ رِوَايَةِ مُخَالِفِيكُمْ وَ لَا نَعْرِفُ مِثْلَهَا عِنْدَكُمْ أَ فَنَدِينُ بِهَا فَقَالَ: يَا ابْنَ أَبِي مَحْمُودٍ لَقَدْ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ﴿ع﴾ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﴿ص﴾ قَالَ مَنْ أَصْغَى إِلَى نَاطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ فَإِنْ كَانَ النَّاطِقُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَدْ عَبَدَ اللَّهَ وَ إِنْ كَانَ النَّاطِقُ عَنْ إِبْلِيسَ فَقَدْ عَبَدَ إِبْلِيسَ ثُمَّ قَالَ الرِّضَا: يَا ابْنَ أَبِي مَحْمُودٍ إِنَّ مُخَالِفِينَا وَضَعُوا أَخْبَاراً فِي فَضَائِلِنَا وَ جَعَلُوهَا عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ أَحَدُهَا الْغُلُوُّ وَ ثَانِيهَا التَّقْصِيرُ فِي أَمْرِنَا وَ ثَالِثُهَا التَّصْرِيحُ بِمَثَالِبِ‏ أَعْدَائِنَا فَإِذَا سَمِعَ النَّاسُ الْغُلُوَّ فِينَا كَفَّرُوا شِيعَتَنَا وَ نَسَبُوهُمْ إِلَى الْقَوْلِ بِرُبُوبِيَّتِنَا وَ إِذَا سَمِعُوا التَّقْصِيرَ اعْتَقَدُوهُ فِينَا وَ إِذَا سَمِعُوا مَثَالِبَ أَعْدَائِنَا بِأَسْمَائِهِمْ ثَلَبُونَا بِأَسْمَائِنَا وَ قَدْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ لا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ‏۔(عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص: 304﴾
ابراھیم بن ابی محمود کھتا ہے میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کیا: اے فرزند رسول اللہ! ھمارے پاس آپ کے مخالفین سے فضائل علی (ع) میں اور آپ اھل بیت علیھم السلام کے فضائل میں ایسی روایات مروی ہیں کہ ویسی روایات آپ (ع) سے نھیں ہیں۔ کیا میں ایسی روایات پر ایمان رکھوں؟
آپ (ع) نے فرمایا: اے ابن ابی محمود! میرے بابا نے اپنے بابا سے، انھوں نے اپنی جد سے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جس نے کسی بولنے والے کی طرف کان دھرا تو اس نے اس کی بندگی کی۔ اب اگر بولنے والا اللہ (ج) کی طرف سے بول رھا ہے تو اس نے اللہ(ج) کی عبادت کی۔ اگر بولنے والا ابلیس کی طرف سے بول رھا ہے تو اس نے ابلیس کی عبادت کی۔ پھر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اے ابن ابی محمود! ھمارے مخالفین نے ھمارے فضائل میں روایات گھڑی ہیں اور ان کی تین اقسام ہیں:
١۔ ھمارے متعلق غلو پر مشتمل ہیں۔
۲۔ ھماری تقصیر پر مشتمل ہیں۔
۳۔ ھمارے دشمن کے عیوب پر مشتمل ہیں۔
﴿یہ اس لئے گھڑی ہیں کہ:) جب لوگ ھمارے غلو پر مشتمل جعل شدہ روایت پڑھیں گے کہ جن میں ھماری طرف ربوبیت کے عقیدے کی نسبت دی گئی ہے تو ھمارے شیعوں کی تکفیر کریں گے
اور جب لوگ ھمارے حق کو کمتر دکھانے والی جعلی روایات پڑھیں گے تو ھمارے متعلق وھی عقیدہ رکھیں گے۔
اور جب لوگ ھمارے دشمن کے عیوب پر مشتمل جعلی روایات دیکھیں گے کہ جن میں ھمارے دشمنوں کے نام لئے گئے ہیں تو ھمارے نام لے کر ھم سے عیب منسوب کریں گے، جبکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا ہے: "مشرک اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کر رھے ہیں ان کو برا نہ کھو کیوں کہ وہ بغیر علم کے اللہ کو برا کھیں گے۔"(انعام:108﴾
غالی کون؟ اور مقصر کون؟
غالی کی اصطلاح معصومین علیھم السلام کی زبان سے ادا ھوئی ہے اور اس کی بنیادی طور پر دو سرحدیں ہیں:
1۔ جو شخص محمد و آل محمد علیھم السلام میں سے کسی کو خدا سمجھے، یا خدائی صفات میں شریک سمجھے یا کسی بھی حوالے سے ان کو مستقل (عقایدی اصطلاح کے مطابق) سمجھے، یعنی ان کو خدا سے بے نیاز سمجھے وہ غالی ہے۔
2۔ جو شخص آل محمد علیھم السلام کو نبی سمجھے، یعنی وحی تشریعی نازل ھونے کا مقام سمجھے، وہ بھی غالی ہے۔
غالی کافر اور نجس ہے
باقی فضائل میں کمی زیادتی غلو یا تقصیر کی لغوی معنیٰ کے مطابق تو ھوگی، لیکن وہ کسی بھی طور پر اصطلاحی غالی یا مقصر نھیں ھوگا نہ ھی کافر یا نجس۔ کچھ خطیب حضرات کو کھتے ھوئے سنا ہے کہ: حضرت علی (ع) کے فضائل کی حد بتا‍ؤ؟ کہ ھم وھاں پر رک جائیں، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اوپر ھم نے دو حدود بتا دی ہیں۔ اب یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کے فضائل کی کوئی حد نھیں ہے!
مقصر وہ ہے جو آئمہ اھل بیت علیھم السلام کو اللہ طرف سے بنایا ھوا امام نہ مانے
فضائل آل محمد علیھم السلام میں باقی چیزیں علم اور معرفت کے مطابق ہیں، جس کا جتنا علم اتنی معرفت۔ جو بھی مسلمان آئمہ اھل بیت علیھم السلام کو اللہ کی طرف سے بنایا ھوا امام مانے، اسے کسی بھی طرح مقصر نھیں کھا جاسکتا۔
لیکن آج کل ھماری اسٹیج سے غالی اور مقصر کے لئے عجیب و غریب اور لاتعداد معیار سامنے آتے رھتے ہیں۔ جن کا اگر خلاصہ کیا جائے تو معیار یہ بنتا ہے، جو شخص میرے عقیدے سے ان حضرات کو برتر مانتا ہے، وہ غالی ہے اور جو ان حضرات کو میرے عقیدے سے کمتر مانتا ہے، وہ مقصر ہے۔
اس طرح ھم سب کچھ لوگوں کی نظر میں غالی ھوں گے تو دوسرے حضرات کی نظر میں مقصر اور کوئی بھی فرد نہ غلو سے باھر نکل پائے گا نہ تقصیر سے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ھم اپنے آپ کو معیار نہ بنائیں بلکہ حقیقت کو معیار بنائیں، ورنہ غالی اور مقصر کے یہ کارخانے چلتے رھیں گے اور لوگوں کی روزی روٹی کا سلسلہ چلتا رھے گا۔
کچھ لوگ ایک عجیب بھانا بناتے ہیں کہ چونکہ عقاید میں تقلید نھیں ہے، اس لئے ھمیں جو عقیدہ صحیح لگے گا، وھی رکھیں گے اور آپ کون ھوتے ہیں پوچھنے والے۔؟
عقاید میں تقلید نہ ھونے کا یہ مطلب بالکل غلط ہے، جو لوگوں کے ذھن میں بیٹھا ھوا ہے۔ اصل مطلب یہ ہے کہ احکام میں تقلید کرنے کا مفھوم یہ ہے کہ مسائل فقھی میں اگر دلیل مجتھد کے پاس ھو اور تقلید کرنے والے کے پاس نہ ھو تو کوئی حرج نھیں ہے، لیکن عقاید میں دلیل مجتھد کے پاس ھو اور عقیدہ رکھنے والے کے پاس نہ ھو تو کافی نھیں ہے، بلکہ دلیل چاھے معمولی ھی کیوں نہ ھو، عقیدہ رکھنے والے کے پاس ھونا بھی ضروری ہے۔
یعنی عقاید تو وھی رکھنے ہیں، جو مکتب اھل بیت علیھم السلام کے ہیں، لیکن اس عقیدہ کی دلیل بھی جاننا ھوگی اور صرف عالم کے پاس عقیدے کی دلیل کافی نھیں ھوگی، جبکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ھمیں ھر طرح کا عقیدہ رکھنے کی آزادی ہے! ایسا ھرگز نھیں ہے مثال: اگر کوئی انسان کھے کہ میری تحقیق یہ ہے کہ امام، اللہ (ج) کی طرف سے مقرر نھیں ھوتا تو کیا اسے مکتب اھل بیت علیھم السلام کا ماننے والا کھا جائیگا؟ اسی طرح اگر کوئی کھے کہ میری تحقیق یہ ہے کہ حضرت علی (ع)، خاتم النبین سے بھی افضل ہیں، تو اسے مکتب اھلبیت کا پیروکار مانا جائیگا؟ دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ اس لئے عقاید میں تقلید نہ ھونے کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ تو وھی رکھا جائیگا جو مکتب اھلبیت کا ہے، لیکن اس عقیدے کا ثبوت اور دلیل بھی رکھنا پڑے گی۔
تحریر: سید حسین موسوی

Add comment


Security code
Refresh