www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

705334
آیات و روایات کے مطابق، صدقہ دینا ایک نھایت اھم کام ہے، لیکن صدقہ دینے والا صرف رضائے الھی کو ھی مد نظر رکھے اور احتیاط رھے کہ کھیں محتاج فرد پر احسان جتانے یا اسے اذیت پھنچانے یا ریاکاری اور دکھاوے کے ذریعے اپنا اجر ضائع نہ کرے۔
صدقہ (زکوۃ اور خمس کے سوا) دینے کی کیفیت کیا ہے، صدقے کے مستحقین کون ہیں؟ کونسی چیزیں بطور صدقہ دی جا سکتی ہیں؟ کم از کم صدقہ کتنا ھونا چاھئے؟
اسلام میں مستحب صدقہ اللہ کی رضا کے لئے ہے:
شرطیں:
جس کو صدقہ دیتے ھو اس پر احسان نہ جتاؤ،
صدقہ دیتے ھوئے ریاکاری اور دکھاوے سے پرھیز کرو،
صدقہ ایسے محتاج کو دو جو اس کو گناہ میں خرچ نہ کرتا ھو،
صدقہ پاک اور حلال اموال سے نکالا جاسکتا ہے،
صدقے میں افراط اور تفریط [Two Extremes] سے پرھیز کرنا چاھئے، [نہ ھاتھ جیب پر رکھنا اور نہ ھی ھاتھ مکمل طور پر کھولنا] یعنی نہ تو صدقہ دینے میں کوتاھی کرو اور نہ ھی اپنی پوری دولت کو بطور صدقہ دے دو، کہ بعد میں خود محتاج ھوجاؤ،
یہ صدقہ انسان کی اپنی صلاحیت پر منحصر ہے اور بعض روایات میں ہے کہ صدقہ دے دو خواہ وہ ایک گھونٹ پانی ھی کی صورت میں کیوں نہ ھو۔
صدقے کے مستحقین میں اقارب اور رشتہ داروں کو ترجیح حاصل ہے۔
اسلام کی شرع مقدسہ میں صدقے کی اھمیت کے بارے میں قرآنی آیات اور احادیث خاندانِ عصمت و طھارت میں بھت زیادہ سفارشات ھوئی ہیں۔
اسلام میں صدقے کی دو قسمیں ہیں: ایک واجب صدقہ ہے جو درحقیقت "زکوۃ" [زکوۃِ مال اور زکوۃِ فطرہ] ھی ہے اور آیات و روایات میں اس زکوۃ کی مقدار بھی بیان ھوئی ہے اور اس کے مستحقین بھی متعین ہیں۔ (1)
لیکن ھم یھاں اختصار کا لحاظ رکھتے ھوئے صرف مستحب صدقے پر بحث کررھے ہیں اور سوال بھی اسی صدقے کے بارے میں ھوا ہے۔
الف۔ صدقے کی اھمیت
صدقے کی اھمیت میں احادیث بکثرت نقل ھوئی ہیں جن کے فوائد بھت زیادہ ہیں؛ مثلاً یہ کہ:
صدقہ رزق میں برکت کا سبب ہے
صدقہ بیماریوں کی شفاء ہے
صدقہ جھنم کی آگ سے دوری کا سبب ہے
صدقہ دنیا میں ستر بلاؤں اور مصیبتوں کو دفع کردیتا ہے
ستر شیطانوں کو دفع کرتا ہے
صدقہ عمر کے طویل ھونے کا سبب ہے و۔۔۔۔ (2﴾
ب۔ صدقے کی آفات
خداوند متعال صدقہ دینے کی تعریف فرماتا ہے لیکن صدقے کی دو روشوں کو ھرگز پسند نھیں کرتا:
ایک وہ صدقہ جس میں ریا اور دکھاوے کا عنصر شامل ھو جو ابتداء ھی سے باطل ہے اور اس کا کوئی بھی مثبت ثمرہ نھیں ہے
دوسرا وہ جس کا ثواب محتاج شخص پر منت و احسان جتانے اور اذیت و آزار کی وجہ سے محو ھوکر رہ جاتا ہے،
صدقے کی یہ دو روشیں صدقے کے ضائع ھونے کا سبب بنتے ہیں اور اس کی قدر و قیمت نیست و نابود ھوجاتی ہے اور وجہ بھی یہ ہے کہ "یہ صدقہ رضائے الھی کے لئے نھیں دیا گیا"، اور اگر پھر اللہ کی رضا کے لئے ھو بھی، صدقہ دینے والا اپنی الھی نیت کو خالص نھيں رکھ سکا ہے اور ریا کی وجہ سے یا احسان جتانے کے بموجب یا پھر اذیت دینے کے باعث اس کو باطل کرچکا ہے۔ (3﴾
صدقہ دینے میں ایک بھت ھی اھم نکتہ یہ ہے اس کو خفیہ طور پر دیا جائے۔
صدقہ دینے کی کیفیت:
خداوند متعال نے صدقے کی دو قسمیں بیان کی ہیں:
1۔ آشکار اور اعلانیہ صدقہ
2۔ خفیہ اور رازداری سے دیا گیا صدقہ
اللہ نے ان دونوں قسموں کی تعریف فرمائی ہے کیونکہ ان دنوں قسموں کے صدقے کے اچھے اور اھم نتائج اور اثرات ہیں۔
اول الذکر صدقے کی تعریف ھوئی ہے اس لئے کہ جب آپ اعلانیہ صدقہ دیتے ہیں تو یہ درحقیقت لوگوں کو نیک کاموں کی عملی دعوت ہے اور اس سے بھت سے لوگوں کو ترغیب دلائی جاتی ہے کہ وہ بھی صدقہ دیں اور دوسری طرف سے اس سے محتاجوں اور مسکینوں کو دلاسہ ملتا ہے۔
محتاجوں کو دلاسہ ملتا ہے، وہ کیسے؟ وہ یوں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں مھربان اور نیکوکار لوگ موجود ہیں جو ان کو تنھا نھیں چھوڑتے اور انھيں گرتے ھوا نھیں دیکھ سکتے اور معاشرے میں ان کے لئے اپنے کچھ اموال مختص کردیتے ہیں تا کہ ان کی ضروریات پوری ھوں اور یہ وہ مھربان لوگ ہیں جو محتاجوں کی مدد کرکے اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ بنانے کا اھتمام کرتے ہیں۔
یہ عمل [اعلانیہ صدقہ دینا] اس لحاظ سے بھی بھت اھم ہے کہ محتاج اور مسکین افراد کی ناامیدی امید میں بدل جاتی ہے، اور اپنے گھر میں اور معاشرتی کردار ادا کرنے کے سلسلے میں، نشاط و طراوت کی نعمت سے بھرہ ور ھوجاتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ اگر سرمایہ دار لین دین اور تجارت کرتا ہے، تو صرف اپنے مفاد ھی کے لئے نھیں کرتا بلکہ وہ اپنے اموال میں محرومین اور سائلوں کے لئے معلوم اور متعین حق قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ اس عمل کے بھت سے معاشرتی اور نھایت اھم اثرات ہیں۔ (4﴾
سورہ معارج کی چند آیات کا اردو ترجمہ ملاحظہ ھو:
إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعاً (19) إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعاً (20) وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعاً (21) إِلَّا الْمُصَلِّينَ (22) الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (23) وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ (24) لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (25) وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (26) وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ (27)
ترجمہ: یقینا انسان بھت چھوٹے دل والا پیدا ھوا ہے ٭ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بے قرار ھو جاتا ہے ٭ اور جب کچھ بھی دولت ھاتھ آتی ہے تو بخل سے کام لیتا ہے ٭ سوا ان نماز گزاروں کے ٭ جو ھمیشہ نماز کے پابند رھتے ہیں ٭ اور جن کے مال میں ایک مقرر حق ہے ٭ سوال کرنے والے اور نہ سوال کرنے والے محتاج کے لئے ٭ اور جو جزاء وسزا کے دن کو سچ مانتے ہیں ٭ اور جو اپنے پروردگار کی طرف سے سزا سے ڈرتے رھتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مؤخر الذکر والے [غیر اعلانیہ اور خفیہ] صدقے کے اثرات کیا ہیں:
خفیہ طور پر دیئے جانے والے صدقے کے اثرات یہ ہیں کہ:
یہ صدقہ ریا اور دکھاوے سے دور ہے
محتاج و مسکین کی آبرو محفوظ رھتی ہے اور
محتاج اور مسکین شخص ذلت و خفت محسوس نھيں کرتا؛
چنانچہ کھا جاسکتا ہے کہ اعلانیہ صدقے کے اثرات اور فوائد کچھ زیادہ ھی ہیں لیکن خفیہ صدقہ دینا زیادہ خالص اور پاک انداز سے انجام پاتا ہے اور اس کی فضیلت زیادہ ہے۔
چونکہ دین اسلام اخلاص پر بھت زیادہ تاکید کرتا ہے لھذا کوئی عمل جس قدر کہ خالص تر ھوگا اس کی فضیلت اسی قدر زیادہ ھوگی چنانچہ اگرچہ اللہ تعالی نے دونوں قسموں کے صدقے کو ممدوح جانا ہے لیکن وہ خفیہ صدقے کو ترجیح دیتا ہے اور سورہ بقرہ کی آیت 271 میں فرماتا ہے:
"إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ"۔
ترجمہ: اگر تم ظاھر کرو خیرات کو تو یہ بھی اچھا ہے، اور اگر اسے پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو تو وہ بھتر ہے تمھارے لیے اور تمھارے کچھ گناھوں کا کفارہ ھو جائے گا اوراللہ تمھارے اعمال سے با خبر ہے ھی۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"جو کچھ اللہ نے تم پر واجب کیا ہے اس کی اعلانیہ بجا آوری بھتر ہے اس کی خفیہ بجا آوری سے اور جو کچھ اللہ نے مستحب قرار دیا ہے اس کی خفیہ بجاآوری بھتر ہے اس کی اعلانیہ بجا آوری سے"۔ (5﴾
البتہ صدقہ دینے والا صدقہ دینے میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے یعنی ایسا نہ ھو کہ صدقے میں کنجوسی برتے اور ایسا بھی نہ ھو کہ اس طرح سے صدقہ دے کہ خود دشواریوں سے دوچار ھوجائے۔
خداوند متعال کا ارشاد ہے:
"وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَّحْسُوراً"؛ (6﴾
ترجمہ: اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ھوا نہ رکھو اور نہ اسے بالکل پھیلا ھی دو، کہ اس صورت میں لعنت ملامت میں گرفتار، رنج و غم، پریشانی میں مبتلا بیٹھو گے۔
ج۔ صدقہ کس چیز سے دیں؟
کچھ تاریخی روایات میں ہے کہ بعض افراد چوری کرکے اس میں سے صدقہ دیا کرتے تھے لیکن قرآن و حدیث نے صدقہ دینے کے لئے ضوابط کا تعین کیا ہے۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ"؛ (سورہ بقرہ، آیت 267﴾
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی کمائی کی اچھی، پاک و حلال چیزوں سے خیرات کرو۔
یعنی یہ کہ پاک اور حلال اموال میں سے ـ تمھاری اس کمائی میں سے جو تم حاصل کرتے ھو ـ صدقہ دے سکتے ھو؛
علاوہ ازیں تمھاری کوشش یہ ھونا چاھئے کہ پست اور ناچیز اموال میں سے صدقہ نہ دیا جائے؛ کیونکہ صدقہ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے دیا جاتا ہے؛ صدقے میں ایک کردار صدقہ دینے والے کا ہے اور ایک طرف خدا کی ذات ہے اور دوسری طرف سے بےنوا اور محتاج افراد ہیں اور اگر مؤمنین ان مسائل کا لحاظ نہ رکھیں تو [معاذ اللہ] خدا کی بھی توھین ھوگی اور محتاجوں اور مساکین کی بھی تذلیل لازم آئے گی۔ (7﴾
اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
"لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ"؛ (سورہ آل عمران، آیت 92﴾
د۔ صدقه کس کو دیں؟
عمرو بن جموح ایک مالدار بزرگ تھے۔ ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں عرض گزار ھوئے:
میں کس چیز میں سے صدقہ دوں اور کن لوگوں کو دوں؟
آیت کریمہ نازل ھوئی:
"يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ"؛ (8)
ترجمہ: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خیرات کریں [اور صدقہ دیں]؟ کہہ دیجئے کہ جو مال بھی تم صرف کرنا چاہو ، وہ ->"ماں، باپ، عزیزوں"<-، یتیموں اور غریبوں اور مسافروں کا حق ہے، اور جو بھی نیک کام کرو اللہ اس سے با خبر ہے۔ [یعنی صدقے میں سب سے پھلا اور ترجیحی حق والدین کا ہے اور پھر دوسرے رشتہ داروں کا اور پھر دوسروں کا]
امر مُسَلَّم یہ ہے کہ یھاں جو کچھ بیان ھوا یہ واضح مصادیق ہیں لیکن موضوع ان ھی مصادیق تک محدود نھیں بلکہ حقیقت میں انسان ھر اس چیز سے صدقہ اور خیرات دے سکتا ہے جن سے صدقہ اور خیرات دینا ممکن ہے اور جن کو صدقہ دیا جاسکتا ہے ان کا دائرہ بھی بھت وسیع ہے۔ ھم نے یھاں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔
کچھ آیات کریمہ سورہ بقرہ سے:
... وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلأنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ (272) لِلْفُقَرَاء الَّذِينَ أُحصِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاء مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافاً وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللّهَ بِهِ عَلِيمٌ (273) الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرّاً وَعَلاَنِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ (274) (سورہ بقرہ﴾
ترجمہ: آپ پر انھیں ٹھیک راستے پرلگا دینے کی ذمہ داری نھیں ہے۔ وہ تواللہ جسے چاھتا ہے ٹھیک راستے پر لگاتا ہے اور جو تم لوگ مال و دولت خیرات میں دو گے وہ اپنے ھی لیے اور نھیں خیرات کرو گے مگر اللہ کی خوشنودی کے لیے اور جو مال و دولت خیرات میں دو گے وہ پورا پورا تمھیں ادا کر دیا جائے گا اور تم پر ظلم نھیں کیا جائے گا (٭) ان تنگ دست افراد کا حق ہے جو اللہ کی راہ میں بے چارہ و تدبیر ھو گئے ہیں اس طرح کہ روئے زمین پر سفر نھیں کر سکتے نا واقف انہھیں رکھ رکھاؤ کی وجہ سے مال دار سمجھے گا، تم انھیں ان کے قیافہ سے پھچان سکتے ھو، وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نھیں کرتے اور جو کچھ مال ودولت تم پر خرچ کرو تو بلاشبہ اللہ اس کا جاننے والا ہے (٭) وہ جو اپنے اموال رات اور دن میں، خفیہ اور اعلانیہ خیرات میں دیتے ہیں، ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے پروردگار کے یھاں اور انھیں کوئی کھٹکا نھیں ھو گا اور نہ افسوس ھو گا۔
لھذا، اگرچہ انفاق اور صدقہ و خیرات کا دائرہ بھت وسیع ہے لیکن اسلام نے اس کے لئے کچھ ترجیحات بھی بیان کی ہیں:
بےشک والدین اگر محتاج ہیں تو پھلی ترجیح والدین ھی ہیں
اس کے بعد رشتہ دار اور اقارب و اعزاء کی باری آتی ہے
بعدازاں یتیموں کی باری ہے اور پھر
وہ لوگ جو درحقیقت محتاج نھیں ہیں لیکن کسی حادثے کی وجہ سے، سفر خرچ ختم ھونے کی بنا پر، یا گھریلو اخراجات بڑھنے اور رقم ختم ھونے اور مقروض ھونے کی وجہ سے محتاج ھوجاتے ہیں۔ (9﴾
اب اس سوال کا جواب ـ کہ کم از کم صدقہ کس قدر ھونا چاھئے ـ یہ ہے کہ آپ کی قوت جس قدر ھو، اتنا ھی صدقہ دے دیا کریں، حتی کہ بعض روایات میں پانی کا ایک گھونٹ ھی بطور صدقہ بیان ھوا ہے۔ (10﴾
نتیجہ:
آیات و روایات کے مطابق، صدقہ دینا ایک نھایت اھم کام ہے، لیکن صدقہ دینے والا صرف رضائے الھی کو ھی مد نظر رکھے اور احتیاط رھے کہ کھیں محتاج فرد پر احسان جتانے یا اسے اذیت پھنچانے یا ریاکاری اور دکھاوے کے ذریعے اپنا اجر ضائع نہ کرے۔ جتنا ممکن ھو صدقہ و خیرات دے، اور صدقات میں والدین اور اقرباء کو ترجیح دے۔
منابع و مآخذ
1۔ سوره توبہ، آیت 60۔
2۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعة، ج 6، ص 257، موسسة آل البیت، قم، 1409ق۔
3۔ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، ترجمه، موسوی همدانی، ج 2، ص 601، جامعه مدرسین، قم، 1374۔
4۔ همان، ج 2، ص 610۔
5۔ کلینی، فروع کافی، ج 1، ص 7، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365۔
6۔ سورہ بنی اسرائیل [اسراء]، آیت 29۔
7۔ داور پناه، ابوالفضل، انوار العرفان فی تفسیر القرآن، ج 4، ص 500،انتشارات صدر، تهران، 1375۔
8۔ سورہ بقرہ، آیت 215۔
9۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج2، ص104۔
10۔ طیب، سید عبد الحسین، تفسیر اطیب البیان، ج 1، ص 230،انتشارات اسلام، تهران، 1378۔

Add comment


Security code
Refresh