www.Ishraaq.in (The world wide of Islamic philosophy and sciences)

وَأَشۡرَقَتِ ٱلۡأَرۡضُ بِنُورِ رَبِّهَا

734895
عرب ممالک آبنائے ھرمز کی اھمیت کو کم کرنے اور ایرانیوں کی جانب سے اسے بند کرنے کی دھمکیوں کو غیر مؤثر بنانے کے لئے متعدد سمت میں کوششیں کر رھے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے تیل برآمد کو صفر تک پھنچانے کی دھمکی کے بعد ایران کے صدر نے علامتی طور دھمکی دی تھی کہ اگر ایران کا تیل برآمد نھیں ھو گا تو کسی کا تیل بھی برآمد نھیں ھوگا۔ یہ بیان آبنائے ھرمز کو براہ راست بند کرنے کی دھمکی سمجھا جا رھا تھا۔ ایران نے پھلے ھی واضح کر دیا ہے کہ خطرہ ھونے کی صورت پر آبنائے ھرمز بند کر دے گا اور یہ کام اس کے لئے ایک گلاس پانی پینے جیسا آسان ہے۔
2006 میں، امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے ساتھ ھی جب فوجی ٹکراو کا خدشہ بڑھا تو اس کے ساتھ ھی آبنائے ھرمزو کے بند ھونے کا بھی خطرہ بڑھ گیا جس سے پوری دنیا اور خاص طور پر تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک میں کھرام مچ گیا کیونکہ دنیا کا چالیس فیصد تیل اسی راستے سے جاتا ہے اور بھت سے عرب ممالک کے 100 فیصد تیل اسی راستے سے دنیا تک پھنچتا ہے اسی لئے بعض عرب ممالک نے اپنے تیل کی برآمد کے لۓ متبادل راستے تلاش کرنے کی مھم شروع کی، بھت سے راستوں پر غور کیا گیا، جن میں سے ایک متحدہ عرب امارات الفجیرہ بندرگاہ سے دریائے عمان تک پائپ لائن بچھانا ہے تاکہ ایران کی جانب سے آبنائے ھرمز بند کئے جانے کی حالت میں، تیل کے بحران سے محفوظ رھا جا سکے۔
متحدہ عرب امارات نے 30 جون 2012 میں 3.3 بلین ڈالر کی قیمت پر الحبشان - الفجیرہ تیل پائپ لائن کی تعمیر کا افتتاح کیا۔ اس پائپ لائن کی لمبائی 380 کلو میٹر ھوگی اور پوری پائپ لائن متحدہ عرب امارات میں ھوگی۔
الحبشان - الفجیرہ تیل پائپ لائن کو یو اے ای آبنائے ھرمز کا متبادل بنانا چاہ رھا ہے جو مغربی ایشیا کی ایک اھم آبی گزرگاھوں میں ہے جو ایران کے جنوب میں خلیج فارس اور دریائے عمان کے درمیان میں واقع ہے اور اسے دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ بھیڑ بھاڑ والا آبی راستہ سمجھا جاتا ہے اور امریکی توانائی کے شعبے نے اسے دنیا کا سب سے اھم آبی راستہ کھا ہے۔ یہ خلیج فارس سے آزاد سمندری علاقوں تک پھنچنے کے لئے واحد راستہ ہے اور اسٹراٹیجی کے لحاظ سے سب سے اھم آبی راستہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس کے شمالی ساحل پر ایران واقع ہے جبکہ جنوبی ساحل پر عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان واقع ہیں۔ آبنائے ھرمز کا عرض کچھ جگھوں میں بھت کم ہے جس میں بڑے جنگی بیڑوں اور بڑے ٹینکروں کو احتیاط سے گزرنا پڑتا ہے۔
سعودی عرب کا 88 فیصد ، عراق کا 98 فیصد ، 99 فیصد متحدہ عرب امارات اور 100 فیصد کویت اور قطر کا تیل آبنائے ھرمز سے ھوکر گزرتا ہے۔
سمندر کے ذریعے برآمد ھونے والے دنیا کے تقریبا 40 فیصد تیل آبنائے ھرمز سے ھوکر دوسرے ممالک تک پھنچتے ہیں۔
آبنائے ھرمز تیل کی برآمد کے لئے ھی اھم نھیں بلکہ تیل کے علاوہ بھی2.9 ارب ٹن سامان اسی آبی راستے سے گزرتا ہے اور دبئی بندرگاہ سے آزاد آبی راستے تک پھنچنے کا واحد راستہ آبنائے ھرمز ہے۔ خلیج فارس کے کئی ملک، بڑی بڑی بندرگاھیں بنا رھے ہیں جو آبنائے ھرمز کے بند ھونے کے ساتھ ھی بند ھو جائیں گی تو پھر یو اے ای ایک پائپ لائن بچھا کر کیا کر سکتا ہے؟
ویسے بھی یہ پائپ لائن، یو اے ای کے تیل کی پیداوار کا 90 فیصد حصہ ھی منتقل کر سکتی ہے جس کا مطلب یہ ھوگا کہ پائپ لائن بچھانے کے بعد بھی یو اے ای کو اپنے 10 فیصد تیل کی برآمد کے لئے آبنائے ھرمز کی ضرورت رھے گی، دیگر ممالک کی تو بات ھی نھیں کیونکہ یہ پائپ لائن متحدہ عرب امارات کا اپنا منصوبہ کھا جاتا ہے اور اسے کسی بھی صورت میں بین الاقوامی منصوبے کا نام نھیں دیا جا سکتا۔
اس لئے آبنائے ھرمز کی اھمیت، کسی بھی طرح سے کم نھیں کی جا سکتی اور یہ جو حبشان- الفجیرہ تیل پائپ لائن کی بات اتنا بڑھا چڑھا کر کی جا رھی ہے تو وہ صرف پروپیگینڈے کی حد تک ہے عملا اس سے کچھ ھونے والا نھیں ہے اور اسلامی جمھوریہ ایران کے ھاتھ میں موجود آبنائے ھرمز نامی اس تلوار کی دھار کی تیزی کم کرنا حبشان - الفجیرہ تیل پائپ لائن کے بس کی بات نھیں۔

Add comment


Security code
Refresh